mail-google-com
زما لویہ گناہ دادہ چہ پختون یم
بدنام کڑے چہ چہ د ھر جبر قانون یم
پشتو زبان کے نامور شاعر، ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار لائق ذادہ لائق (تمغہ امتیاز) آج کل ریڈیو پاکستان مظفر آباد میں سٹیشن ڈائریکٹر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اس سے قبل وہ پشاور اور ایبٹ آباد میں اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ ہم بچپن سے ریڈیو پاکستان پشاور سے ان کا نام سنتے آرہے ہیں خواہش تھی کہ ان کے ساتھ ملاقات ہو اور یہ خواہش جناب عطاء الرحمان عطاء صاحب نے پوری کردی اور یوں ریڈیو پاکستان مظفر آباد میں ان کے ساتھ ملاقات ہوئی اس ملاقات میں ہمارے ساتھ پشتو زبان کے اور شاعر اور ادیب ڈاکٹر سردار جمال بھی موجود تھے۔ ملاقات کے وقت ان سے اتنی محبت ملی کہ ہم یہ سمجھے کے برسوں سے ان کے دوستانہ ہو۔ ان کی شاعری اور ادبی خدمات کے علاوہ ریڈیو کی اہمیت اور مقاصد پر ن کے ساتھ سیر حاصل بات چیت ہوئی۔
لائق ذادہ لائق نے جہاں بھی ریڈیو کی انتطامی ذمہ داری سنبھالی وہاں وقت ضائع نہیں کیا ۔ ایبٹ آباد ریڈیو کو انہوں نے شناخت دیا ریڈیو مظفر آباد میں آج کل وہ اسٹیشن ڈائیریکٹر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں زلزلہ کے بعد ریڈیو مظفر آباد کی نئی بلڈنگ تعمیر کرانے میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ انہوں نے یہاں آرٹ گیلری بنوائی اور نادر تصاویر کو میگزین میں شامل کیا۔ لائق ذادہ لائق کو حکومت پاکستان کی طرف سے ان کو ان کے ادبی خدمات کے صلے میں تمغہ امتیازملا ہے۔ انہوں نے پانچ سو سے ذائد ڈرامے تحریر کئے ہیں جو ہفتہ وار ریڈیو سے نشر ہوتے رہے ہیں ٹی وی کیلئے بارہ ڈرامے لکھ چکے ہیں ایک سو بیس افسانے ان کے چھپ چکے ہیں اور چھتیس کتابیں لکھ چکے ہیں 1971؁ء میں فلک شیر اخبار سے انہوں نے لکھنے کا آغاز کیا اور آج تک لکھتے چلے آرہے ہیں۔
دنیا کے دیگر اقوام کے مقابلے میں پختون قوم اس لحاظ سے منفرد اور خوش قسمت واقع ہوئی ہے کہ ان کی قومی تاریخ ایسے بے شمار حریت پسندوں اور تاریخی شخصیات کے عظیم کارناموں سے بھری ہوئی ہے
ان کی شاعری کی بنیاد سماجی حقیقت نگاری، رومانویت اور وطن پرستی کے سہہ جہتی راستوں پر استوار ہے۔ کی شاعری اپنے اندر قدیم اور جدید اقدار اور روایات کے تمام مثبت رجحانات سمیٹے ہوئے حقیقت نگاری اور سچائی کی ایک ایسی توانا آواز ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو سلاتی نہیں بلکہ بیدار اور متحرک کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج کا پشتون با شعور ہے ، پشتو کا پروگرام نشر کرنا پشتو کی خدمت نہیں پشتون کلچر نمایا کرنا پشتو کی خدمت ہے ۔آج کل شعر و ادب میں بھی دھشت گردی شامل ہوگئی ہے تاہم لائق ذادہ لائق تشدد سے جڑے علامتی الفاظ پر مشتمل شاعری پر اعتراض کرتے نظر آتے ہیں۔اور محبوب کی آنکھوں کو بموں، شیلنگ اور تباہی کے ہتھیاروں ،ہونٹوں کوآگ اور خدوخال کو ڈرون طیاروں سے تشبیہ دینے لگے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ شاعری انسانی جذبات کی عکاسی کرتی ہے، لیکن کسی انسان میں تمام جذبات منفی نوعیت کے ہی نہیں ہوتے۔ ‘ تشدد، بموں اور عریانی کی بات کرنے والے شاعر ایسا صرف سستی اور مختصر شہرت پانے کے لیے کرتے ہیں۔یہ شاعری دیرپا نہیں ہوتی’اس کے برعکس، پشتو کے کلاسیکل گانے پشتو شاعری اور موسیقی سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں’۔
پشتوکا کلاسک گیت ‘پا سر کا پا مکیز بندے روانہ شا’ (اپنی لال شال اوڑھو اور دھیرے دھیرے چلو) میں محبوب کی عزت اور حسن کو نہایت خوبصورت انداز میں سراہا گیا ہے۔لوکل گیت ‘بی بی شیرینی’ کے شاعر کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے، لیکن یہ گانا آج بھی اپنی خوبصورت شاعری اور موسیقی کی وجہ سے بے حد مقبول ہے۔
لائق ذادہ لائق نے کہا کہ دنیا میں معلومات و تفریح کی بدلتی روایات اور ذرائع کے باوجود ریڈیو کی اہمیت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران ریڈیو کے بہت سے ایف ایم چینل شروع ہوئے جوابلاغ کے اس ذریعہ کی افادیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ریڈیو نے جہاں لوگوں کو معلومات اور تفریح فراہم کی وہیں قدرتی آفات سے لے کر ٹریفک جیسے مسائل کو بھی سب سے پہلے ریڈیو ہی کور کرتا ہے ۔ریڈیو کی اہمیت کسی بھی دور میں کبھی بھی کسی بھی طرح سے کم نہیں ہوئی ہے۔’’اگر بات کی جائے موجودہ دور کی تو ریڈیو کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ٹی وی پر توخبریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں لیکن ٹی وی تب ہی چلے گا جب بجلی ہو گی لوڈشیڈنگ ہمارے ہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے ایسی صورت میں ریڈیو اپنا مقام اور مزید بناتا جا رہا ہے اور آگے نکلتا جا رہا ہے۔‘‘اپنی ایجاد سے لے کر اب تک ریڈیو نے لوگوں کو سوچ دی، تبدیلی کے دروازے کھولے اور جان بچانے والی معلومات پھیلانے کا ذریعہ بنا، انھوں نے مزید کہا کہ ریڈیو تفریح، معلومات اور تعلیم و تربیت فراہم کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ذرائع ابلاغ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ رائے عامہ کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا اہم کردار ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک موبائل ایس ایم ایس ، فیس بک ، ٹوئیٹر ، گوگل اور یو ٹیوب وغیرہ ، دوسرا جو رائج شدہ نظام یا دستور کی حدود و قیود میں رہ کر عوام الناس کو خبر دیتا ہے اور تفریحی سہولیات یا ادبی و ثقافتی تخلیقات پیش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس میں قومی سطح پر چلنے والے ٹیلیو یڑن مراکز ، ریڈیو اسٹیشنز اور رسا ئل و جرائد ہیں۔ اول الذکر ابلاغ کے ذرائع بغیر مالی استحکام کے خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ مؤ خر الذکر پلیٹ فارمز کو ریاست کی آشیر باد اور سر پرستی حاصل ہوتی ہے۔ اشتہارات اور دیگر طرح کی مراعات سے مستفید ہوتے ہیں۔ ان ذرائع ابلاغ میں چلنے اور شائع ہونے والی خبروں ، مضامین ، اداریوں اور تحریروں وغیرہ پر با ضابطہ کار روائی عمل میں آتی ہے۔ اس کے لئے با قاعدہ ادارے قائم ہیں۔ جو ترا شے اور ’’ کار روائی کیلئے متعلقہ محکموں کو تحریری احکامات ‘‘ بھیجتے ہیں ، سوشل میڈیا صرف اور صرف رائے عامہ میں گھس کر اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان حا لات میں یہ دیکھنا ہوگا کہ عوام میں مقبول میڈیم کون سا ہے جو رائے عامہ کو مثبت سمت کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔۔۔۔؟
دور جدید جسے ترقی یافتہ دور بھی کہا جاتا ہے میں بھی لوگوں کو مثبت ذرائع ابلاغ میسر نہیں ہیں۔ پرائیویٹ ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی چینلز نے جو اثرات چھوڑے ہیں پاکستان کا کم اور نا خواندہ معاشرہ ان کا متحمل نہیں ہے۔ یہ اور بات کہ اس نے شعور بھی دیا ہے لیکن ان کے مضر اثرات بھی نا قابل اصلاح ہیں۔ نجی پر نٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں زہر یلے اثرات کے پائے جانے کی اصل وجہ ر پورٹرز کی نفسیات اور اذہان کا بد عنوان ہونا ہے۔ جو خبر اور اطلاع کو ذاتی مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے توپاکستان کا نجی میڈیا عالمی سطح پر مقابلے میں نہیں لا یا جا سکتا۔ میڈیا کے ان نقائص کے پیش نظر جن ضرو رتوں نے جنم لے رکھا ہے۔ ان میں ریڈیو نشریات کو جدید انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ریڈیو کے ذریعے ایسے پروگرامز پیش کئے جائیں جن کے ذریعے نسل نو کی تر بیت ہو سکے کیونکہ ریڈیو کی سماعت کا دائرہ کار اور تناسب دیگر ذرائع ابلاغ سے زیادہ ہے۔ ٹیلی ویڑن دیکھنے والے اب ریڈیو کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
اسٹیشن ڈائریکٹر لائق ذادہ لائق نے کہا ہے کہ زرائع ابلاغ کے اس جدید میں ریڈیو کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ریڈیو ابلاغ عامہ کا وہ زرائع ہے جس کے زریعے دور دراز علاقوں تک بھی علاقے کے حالات و واقعات کا علم ہو تا ہے۔زمانہ جنگ کا ہویا امن کا ریڈیو پاکستان کا ہر دور میں مثالی کردار رہا ہے۔اس لئے ریڈیو سے وابسطہ افراد اپنی پیشہ وارانہ استعداد کار بڑھانے کے لئے سخت محنت کو اپنا شعار بنائیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ریڈیو سٹیشن مظفر آباد کے دورہ کے دوران سید درویش شیرازی، عطاء الرحمان عطاء اورڈاکٹر سردار جمال کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ اناونسرز علاقائی ثقافت،آدب اور زبانوں کی ترقی اور ترویج کے لئے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کررہے ہیں اور ریڈیو کے ذریعے علاقے میں اتحاد و ہم آہنگی کیلئے کام کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان سے وابسطہ افراد ادارے کے قوائد و ضوابط کا خاص خیال رکھ کر خود کو معاشرے کے لئے رول ماڈل ہیں۔
ریڈیو کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے حکومتی سطح پر پروگراموں کے انعقاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریڈیو سے روشناس کرایا جاسکے۔ ریڈیو معلومات کا ذریعہ ہے لیکن تفریح کے لئے بھی ریڈیو کا کردار انتہائی اہم ہے۔ دنیا بھر میں ریڈیو اب بھی معلومات کا بہترین ذریعہ ہے اور خبروں اور تفریحی پروگراموں کی وجہ سے ریڈیو آج بھی بے حد مقبول ہے۔سفر ہو یا گھر، ریڈیو ہر کسی کا ہم سفر رہا۔ وقت تیزی سے تبدیل ہوا، الیکٹرانک میڈیا میں نت نئی ایجاد متعارف ہوئیں۔ ریڈیو بھی جو پہلے صرف اے ایم تک محدود تھا۔ اس نے ترقی کی ایک اور منزل طے کرکے ایف ایم کا درجہ پایا۔ پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں ایف ایم کی نشریات نے سننے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا۔ ایف ایم فریکوینسی کے علاوہ بے شمار انٹرنیٹ پر ایف ایم پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ جہاں لاتعداد آر جے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور ریڈیو سامعین کو تفریح فراہم کرتے ہیں۔
ریڈیو سننا ایک دلچسپ مشغلہ ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ ریڈیو وقت ضائع نہیں کرتا۔ پاکستان میں لاتعداد ایسے سامعین ہیں جو ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سے نشریاتی اداروں کی اردو اور انگریزی نشریات سنتے ہیں۔ جس سے نہ صرف انہیں دنیا میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ علمی صلاحیتوں میں بھی بیش بہا اضافہ ہوتا ہے۔ شاید ریڈیو سننے والے قارئین اس شوق کی قدر و قیمت سے واقف ہوں۔
ریڈیو پاکستان کی تاریخ میں بھی بہت سے ایسے پروگرام نشر ہوتے رہے ہیں جو آج تک ہمارے ذہنوں میں نقش ہیں، جن میں ہر اتوار کو صبح نشر ہونے والا بچوں کا پروگرام پھلواری جسے مْنی باجی اور رفیق بھیا پیش کرتے تھے، بچوں کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ اسی طرح بڑے بزرگوں کا مقبول ترین پروگرام گھسیٹا خان تھا اور حامد میاں کے ہاں تھا، جسے بزرگ حضرات شام میں ایک ساتھ بیٹھ کر سنا کرتے تھے۔ اْن شاندار یادوں کے علاوہ آج بھی ریڈیو پاکستان سے بہت سے معلوماتی پروگرام نشر ہوتے ہیں، جس میں اسپورٹس راؤنڈ اپ، صوتی ڈرامے، موسیقی کے پروگرام کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے لئے نشر ہونے والا پروگرام تعلیمی خبرنامہ وغیرہ ہیں، جس میں تعلیمی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *