محتاج ہوں قلم کا میں کروں جو شاعری
اْس کو نہیں حاجت کوئی سراپا شاعری
قلم کیاہمیت مسلم ہے اگر چہ آج مشین کا دور ہے اور اس مشین نے انسان کوبھی مشین بنادیا ہے اور وہ مشین کی گراری کی طرح چلتا ہے اور اس نے اتنا اثر اتنا گہرا ہے کہ اس نے انسانوں اور معاشروں سب ہی کو تجارتی رنگ میں رنگ دیا بلکہ محبتیں بھی تجارت ہونے لگیں اور محبتوں کی باتیں کرنے والوں کی اکثریت بھی تاجر بن گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکل گیا ہے کہ ہر فرد انفرادیت پسندی کے نشہ میں مبتلا ہے، جمود کا شکار اور ’’شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش میں ہے اور سب ہیملک کو کچھ دے نہیں رہے بلکہ اس سے چھیننے جھپٹنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ نفسا نفسی یہ ہے کہ جس کے ہاتھ جو لگ جائے بس چھین لو ، چُرا لو یا لُوٹ لواور اس چھینا جھپٹی میں جوکامیاب ہے وہی سکندر ہے ۔اور ہمارے رجعت پسند کہتے ہیں یہی اس کی قسمت ہے جو اسے ملا ہے اور جو محروم ہے وہ صبر کرے اس کو اجر ضرور ملے گا۔
اس افرا تفری کے ماحول نے ہر چیز پر اثر ڈالا ہے یہا تک کہ شعر وادب سے وابستہ شاعر اور ادیب جن کا کام معاشرے کوآئینے میں اس کا چہرہ دکھا کر اسکی نوک پلک سنوارنا ہوتا ہے وہ بھی اس کا شکار ہیںزبان دراز ، خوشامدی اور چالاک آگے صفوں میں کھڑے ہیں اور ادب کے نام پر سارا رس چوس رہے ہیںاور صحیح معنوں میں درباری ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور ادب کی خدمت کے نام پر مال سمیٹ رہے ہیں گویا ادبی سانپ بنے ہوئے ہیں۔ادبی تمغے اور ادب کے فروغ کے نام پر مراعات دھڑا دھڑ بک رہی ہیں ، وصول کرنیوالے اپنے شو کیس بھر رہے ہیں مگر اس سے ادب کی کیا خدمت ہورہی ہے اور ادب کو فروغ کے نام پرکیا کچھ ہورہا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تنقید کمز ہے اور مال سمیٹنے والے زور آور ہیںمفاد پرستی نے بھی ذوقِ شعری سے زیاد سکالرشپ پر اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں”ادب سے ذیادہ بے ادبی بڑھ گئی ہے اس ماحول میںادب تخلیق تو ہو رہا ہے مگروہ ا دب ہے کم اور جمو د ذیادہ ہے۔
جس طرح مقدس عنوانات اور انقلاب کے نام پر تماشہ ہوتا ہے اسی طرح ادب کے نام پر بھی تماشے ہوتے ہیں ، اگرایک چیز کا نام بار بار استعمال کیا جائے اور اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو یہ در اصل اس کا رد ہوتا ہے اور اس کے نتائج نہایت ہولناک ہوتے ہیں۔ ایک طرف شاعری نے جہاں لوگوںکے دلوں میں انقلابی جد و جہد میں شریک ہونے میں تاریخ ساز کردار ادا کیاتو دوسری طرف صحافت، افسانہ نگاری، طنز و مزاح اور دیگر اصناف ادب میں اہل قلم کسی طرح پیچھے نہیں رہے اور برملا اعلان کیا گیا کہ۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہوں تو اخبار نکالو
مگر وہ اس دور کا تقاضا تھا جب آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی اور آج کا تقاضا یہ ہے کہ جب ’’ ضرب عضب‘‘ جاری ہے تو اہل قلم ملک کو فساد سے پاک کرنے کیلئے پاک فوج کے شانہ بشانہ ہیں وہ افواج جس کا طرہ امتیاز ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے پوری قوم اس وقت ایک قدم ایک آواز ہے البتہ کنویں کے مینڈک سامراجی ایجنٹ، رجعت پسند اور قنوطی ذہنیت کے مالک عناصر کا اپنا نقطہ نظر ہے جو ہمیشہ فنڈز کھانے کے چکر میں ہوتے ہیں اور معکوس سوچتے ہیں بلکل یہاں پر نام نہاد مذہبی رجعت پسند اور درباری اہل قلم یک جا ہوجاتے ہیں۔بھر حال دعوے کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہمعاشرے کی اصلاح اور سماجی تبدیلی کیلئے قلم نے ہمیشہ نشتر کا کام کیا ہے شاعری کی زبان میں دور کے تقاضوں کے مطابق معاشرتی اصلاح اور یا سماجی تبدیلی کیلئے اہل قلم نے بھر پور کوشش کی ہے اور شعر لکھ کر معاشرے اور سماج کی ترقی کیلئے کام کیا۔ شعرانے پیچیدہ مسائل کو اجاگر کیا اور ان کا حل بھی بتایا اورعوامی مسائل کی نشاندہی بھی کی اور قلم کی زبان میں اس کاآسان اور موثرطریقہ سے حل بھی بتایا اور یہ ثابت کردیاکہ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے قلم کے نوک سے بہتر اور موثر ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ’’ادب‘‘ تہذیب کا چہرہ ہوتاہے اور شاعری چہرے کی لطافت و نزاکت ہوتی ہے کیوں کہ چہرہ اور خاص کر چہرے کی لطافت ونزاکت کے بغیر دنیا کی کسی بھی خوبصورت شے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ’’جس طرح کسی کی خوبصورت آنکھیں اہل نظر پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہیں کہ وہ آنکھیں کتنے بھی دور کیوں نہ ہو بس ایک جھلک دیکھنے کیلئے دور ددراز کی سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں اور آنکھوں کی شاعری کرتے ہیں’’ادب‘‘ اور چہرے کی نزاکت شاعری ہے اور کچھ لوگوں کی آنکھیں بھی شاعری کرتی ہے جس پر کسی الگ موقع پر قلم اٹھایا جاسکاتا ہے اور اچھے اشعار کی تخلیق میں بھی آنکھوں کا ہی کردار ہوتا ہے ۔ شاعری محض تفریح ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ شاعری کو کثافتوں سے بچایا جائے اور شعر وادب کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جائے تاکہ ہمارے قوم کے نوجوان تفریح کے ساتھ ساتھ ہماری کھوئی ہوئی تہذیب سے روشناس ہو سکیںاور قلبی وذہنی سکون پھر سے حاصل کر سکیں، کچھ لکھ سکیں کچھ پڑھ سکیں۔
آج ہمیں اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ وہ شاعر اور ادیب جو شعور کا دیا جلاتے ہیںاور جہالت اورذہنی غلامی سے نجات دلانے کیلئے قابل رشک کردار ادا کرتے ہیں معاشرتی جبر اور استبداد کے خلاف عوام کے حقوق کیلئے قلم کا سہارا لے کر ظالمانہ سماج ، فرقہ واریت اور استحصال کے خلاف جنگ لڑتے ہیں کہیں ہم نے ان کے خلاف تو جنگ نہیں شروع کردی ہے؟ ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے ہر دور میں قلمی جنگ لڑی شعوری بیداری کیلئے ان گنت نظمیں، غزلیں اور مضامین لکھے اور وطن سے اپنی وفاداری بخوبی نبھائی لیکن کیالیکن آج ہم کس سمت چل پڑے ہیں اور شعر وادب کیلئے کیا حق ادا کر رہے ہیں؟۔ کیا ہم نے اس کے ساتھ وفادارہیں؟ کیا ہم نے شعر وادب کے فروغ اوراور قلم کاروں کے جائز حقوق دلانے کی یا دینے کی کبھی کوشش کی؟