کچھ لوگوں کو موسم سے بھی چڑ ہوتا ہے بارش تو کیا ہلکی ہلکی بارش کا نام سننا بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا ہے حالانکہ موسم تو قدرت کے رنگ ہیںاور سب ظاہری خوشیاں موسم کے سنگ ہیں۔دلفریب مناظر، حسین موسم، بارش میں بھیگتی خوبصورت سٹرکیں۔درختوں سے ٹپکتے بارش کے قطرے۔بارش کے بعد فلک پر چہچہاتے پرندے، حسین چہرے اور حسن تکلم دل کو بھلے معلوم ہوتے ہیںاور زندگی کے احساسات پورے طور ’’موسم‘‘کے اردگرد ہی گھومتے ہیں۔ موسم خوشگوار توطبیعت خوشگوار۔موسم مغموم تو طبیعت غمگین۔ اور بارش تو زندگی کی علامت ہیمگر ہلکی ہلکی بارش پر حسن کا غصہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہت سارے سوالات ا’مڈ پڑے۔گھپ اندھیرے میں ایک معمولی دیا سلائی بھی دْور سے جلتی نظر آجاتی ہے مگر آس پاس بکھری تاریکیوں اْداسیوں پر کوئی نظر نہیں ڈالتا۔ کیا حسن نے کبھی یہ سوچا؟
آج انسان اپنے میں مگن رھنے کی جو روش اپنائے ہوئے ہے یہ اس کے لئے گھاٹے کا سودا ہے بے شک یہ بات درست ہے کہ انسان اکیلا آیا ہے اور اسے اکیلے ہی جانا ہے لیکن محض اسی بات کو جواز بنا کر ھم اس بات کو سچ ثابت نھیں کر سکیں گے کہ ھمیں اپنی زندگیوں میں کسی دوسرے انسان کی ضرورت نھیں رہی ھے تو ھمیں آپس میں میل ملاپ کی فضا قائم کرنے میں بھی کوئی فائدہ نھیں ھے – آج اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو ہر انسان پریشان ہے ارر کسی نا کسی طرح زہنی دباؤ کا شکار ھے اس کی وجہ بھی یہی ھے کہ ھم اپنی اخلاقی اقدار بھول رھے ھیں وہ اخلاقی اقدار جو ھمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے پر مجبور کرتی ھیں ،
آج کا معاشرہ دْکھوں کے ہاتھوں ٹوٹے ہوئے انسانوں کا ہے۔آج ہر شخص کسی نہ کسی مسیحا کا منتظر ہے۔۔ اور جو اہل حسن بزعم خود جج بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔۔کبھی خود کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر کے ضرور دیکھیں ہم معاشرے کی ایک ’’گرد آلود تصویر‘‘ کے نیچے زندگی بسر ضرور کر رہے ہیں مگرحسین موسم اور حسن تکلم قدرت کی رنگینیاں ہیں جسے زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ زبانی کلامی نیکی کا دعویٰ اور ہمدردی کا اظہار بہت جلد انسان کو بے نقاب کر دیتا ہے۔۔اطمینان قلب زبان سے چھلکتا ہے۔نسانی زندگی ایک کتاب ہے مگر یہ ’’کتاب‘‘ بس ایک مرتبہ لکھی جا چکی ہے۔ہر شخص الگ سے ’’کتاب‘‘ نہیں لکھتا اور نہ ہی لکھ سکتا ہے بلکہ وہ اِسی لکھی ہوئی’’ تحریر‘‘ کو پڑھتا ہے۔ہمارا معاشرہ اتنا زوامعاشرہ اتنا زوال پذیر کیوں ہے؟یہ طبقات اور معاشرتی اْونچ نیچ آخر ماجرہ کیا ہے؟۔معاشی وسائل کی غیر مساوی بنیادوں پر تقسیم سبب کیا ہے؟ اگر لگن۔یقین میں دراڑیں پڑ جائیں تو پھر ’’زوال‘‘ کا ظہور بھلا کون روک سکتا ہے۔بے ساکھ چہرے کبھی خوشی نہیں دے سکتے۔’’حسن ‘‘ کے بغیردِلوں سے اطمینان رْخصت ہو جاتا ہے۔۔دماغ منتشر سوچوں کا گڑھ بن جاتا ہے تو پھر ایسے عالم میں ایک طالب حسن کیسے خوش ہو گا ؟ہم شدید آندھی میں کھڑے ہو کر چراغ کیسے جلاسکتے ہیں۔۔ صحرا میں رہ کر ریت کے تیز بگولوں سے کس طرح اپنا بچائو ممکن بنا سکتے ہیں۔۔جب تک ہم احتیاطی تدابیر نہ اختیار کر لیں۔
آج کے مادی دور میں انسان آسائشوں میں گھر کر ایک دوسرے سے دور ھو رہا ھے رشتوں میں دڑاڑ پڑ رھی ھے ، سب ایک دوسرے سے بیزار نظر آتے ھیں کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نھیں چھوٹے بڑوں کا احترام کرنا اپنی توھین سمجھتے ھیں بڑے چھوٹوں کی غلطیوں کو معاف نھیں کرتے نا شفقت کا رویہ اپناتے ھیں جو ایک مذہب انسان کا خاصہ ھوتی ھیں وہ سب روایات عادات کیفیات ختم ھو رھی ھیں ، اسی وجہ سے اب خون محبت اور رواداری کے رشتے بوجھ بن کر رہ گئے ھیں ھمیں اپنے معاشرے کو بچانے کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ھوگا ہر فر د ہر رشتہ ہر گروہ اپنے اپنے طور پر اٹھ کھڑا ھو گا تو ھی ھم اپنے معاشرتی نظام کو اپنی روایات کو اپنے رشتوں کے تقدس کو بچا سکیں گے ورنہ ھم احساس اور محبت والے انسانوں سے محروم ھوتے جائیں گے اور صرف مشینی انسان بچ جائیں گے جو کسی کے لئے فائدہ مند نا ھونگے صرف اپنے مقاصد کو ھی سمجھنے والے ھونگے جیسا کہ آجکل دکھائی بھی دینے لگا ھے ، پھر مشینی انسان کے معاشرے میں سب دکھ تکلیف میں مبتلا ھوتے جوئیں گے ہر فر د اپنی اپنی جگہ تنہا ھوتا جائے گا کوئی کسی کو اپنے ھونے کا احساس نا دلا سکے گا ، سب دکھی پریشان ھونگے اور ایک بیمار معاشرہ پروان چڑھے گا جو انسانیت سے بے نیاز اور فلاح سے محروم ھوگا ، جس کا مظاہرہ اکثر و بیشتر ھونے بھی لگا ھے آج اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ہر فرد پریشان ھے ہر گھر میں بیماریاں تکالیف ڈیرہ ڈالیں ھیں جب محبت الفت احساس سے خالی انسان گھر ملک ھونگے تو پھر ظاہری بات ھے خالی جگہوں پر کسی اور نے تو براجمان ھونا ھے وہ خواہ کسی بھی شکل میں ھو ،- ھمیں خود کو بچانا ھے انسانیت کو بچانا ھے اپنے انسانی تشخص کو بحال رکھنا ھے ، محبتوں اور آپس کے احساس کو بڑھا کر یہ انسان اور انسانیت کی بقا کے لئے اشد ضروری ھے!!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *