درویش شیرازی
اردوادب میں ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کا نام کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے وہ ہزارہ یونیورسٹی میں اردو کی خدمت کر رہے ہیں خیبر پختون خواہ میں اردو کے ایک ماہر استاذ کی حیثیت سے اور مْثبت فکر ونظر کی وجہ سے وہ منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اور تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ تخلیقی کام بھی برابر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی کئی تصانیف شائع ہو چکی ہیں اور اردو حلقوںمیں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی محقق، نقاد، تخلیق کار، منتظم اور مبصر ہر حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور ڈاکٹر الطاف یوسفزئی نہ صرف اردو ایک ایک استاذ ہیں بلکہ وہ بہترین شاعر بھی، افسانہ نگار بھی ہیں اور افسانہ نویس بھی ہیں اور شخصیت نگار بھی ہیں۔ انھوں نے شاعری، افسانہ، ڈرامہ اور دوسرے اصناف کے علاوہ سماجی وادبی تحریکوں کا بھی جائزہ لیا ہے، اور تنقید کے آفاقی قدروں کو ملحوظ رکھنے کی سعی کی ہے۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی خیبرپختونخواہ کے ایسے ادیب ہیں جو اس وقت ہزارہ یونیورسٹی کے طلباء کو اردو سے آشنا کر رہے ہیں اور اردو ادب کی مختلف جِہتوں کو متعارف کراتے رہے ہیں، اور اپنی تنقیدی بصیرت سے نہ صرف اردو ادب کے ذخیرہ میں اضافہ کر رہے ہیں اور طلباء کی ذہن سازی کر رہے ہیں۔ وہ بہترین منتظم محقق اور مدرس ہیں اب تک ان کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیںسب سے پہلے ان کی کتاب ’’اردو نظم اور نائن الیون ‘‘ شائع ہوئی ان کی دوسری کتاب ’’مختار احمد کا اسلوب‘‘ ہے اور ان کی تیسری کتاب پاکستان کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی پٹھان کرداروں کا پشتو میں ترجمہ ہے اس کتاب کو ہائر یجوکیش کی طرف سے انعام دیا جا چکا ہے اس کے علاوہ ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کا سفر نامہ ’’ تھائی لینڈ کے رنگ‘‘ منصہ شہود پہ آچکا ہے۔جسکے بارے میں ڈاکٹر نذر عابد صاحب نے لکھا ہے ’’ڈاکٹر الطاف اپنے اس سفرنامے میں ایک البیلے سیاح کے رْوپ میں نظر آتے ہیں جو تھائی لینڈ کے مناظر کو کھلی آنکھ سے دیکھتا ہے، وہاں کے لوگوں کا کھلی بانہوں سے استقبال کرتا ہے اور اْن کے خیالات اور احساسات و جذبات کو کھلے ذہن سے پڑھتا ہے۔ اْن کی اسی کشادہ نظری اور وسعتِ قلبی نے انھیں تھائی لینڈ کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے اور وہاں کے باسیوں کے باطن میں جھانکنے کا ظرف اور حوصلہ عطا کیا ہے۔ وہ اپنے رواں دواں اسلوب کے وسیلے سے اپنے مشاہدات و تجربات کے بعض مشکل مراحل کے اظہار و بیان میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اْمید ہے انھیں مزید سفراسفار کے مواقع بھی میسر آتے رہیں گے اور اْن کے قاری کے سامنے اْن کے مشاہدات و تاثرات کے نت نئے رنگ بھی بکھرتے رہیں گے‘‘۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی برملا یہ اظہار کرتے ہیں کہ ادب ہماری سماجی زندگی میں تبدیلی لانے کا ذریعہ ہے اور سماج کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں میں مدددیتا ہے اور ایک ترقی یافتہ اور پاکیزہ اخلاق پر مبنی معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتاہے۔قلم قوموں کی ترقی کاہتیارہی نہیں ہے، بلکہ ادب لوگوں کے شعورکو ابھارتا ہے اور ان کی احساسات کو بیدار کرتا ہے۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی نظریاتی اعتبار سے ایک روشن خیال اور کشادہ ذہن شخصیت کے مالک ہیں اسی وجہ سے ان کی تنقید نگاری ترقی پسند ہوتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ ان کی تنقید نگاری کی فکری اساس کافی وسیع ہے۔ ایک طرف وہ ادب کے زندگی اور سماج سے گہرے تعلقات کے قائل ہیں اور ادب کو سماج کا معمار، اَخلاق کا معلم اور سیاست کا راہبر مانتے ہیںاوروہ معاشرتی روایات اور قدروں کے بھی امین ہیں۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ ادب وہ ہے جس میں کوئی واضح معاشرتی رہنمائی کرے اور اس کا رشتہ فنی جمالیات کے ساتھ ساتھ زندگی اور معاشرت سے بھی مربوط ہو، جس کے ذریعہ سماجی اصلاح کا کام لیا جاسکے اور معاشرہ ترقی کرے اس بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ ادب جمالیاتی آسودگی کے ساتھ انسان کی بنیادی قدروں سے بھی رشتہ استوار رکھتا ہے۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کی ادبی خدمات کو تنقیدی سرمائے کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے تنقیدی شعور و آگہی کاپیغام دیا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ادب دماغ انسانی کی کاوشوں کا ایک آیئنہ ہے ، انسانی فطرت ہر قوم ، ہر ملک ، ہر زمانہ میں یکساں نظر آتی ہیں۔ سطحی اختلافات تو ضرور ہیں اور ہوتے رہتے ہیں ؛لیکن حقیقت نہیں بدلتی۔… ادب بنی نوع کی زندگی اور اس کے شعور سے وابستہ ہے۔ نوع انسانی کی زندگی مسلسل ہے۔ افراد فنا ہوجائیں؛ لیکن نوع کی فنا نہیں۔ اس میں تغیر تو ضرور ہوتا ہے۔ لیکن یہ تغیر ارتقا ئی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اسی طرح ادب میں بھی اس تسلسل کا وجود لازمی ہے۔
ان کے نزدیک ادب انسانی تجربات کا اظہار ہے۔ ان تجربات میں جذبات اور خیالات دونوں شامل ہیں۔ یعنی شعر و ادب سے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے کسی دور کے ادب کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے اس ماحول کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ان کے نذدیک کے شعور ادب میں تجربہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ جس کا براہ راست تعلق انسانی ماحول سے ہے۔ جس میں تغیر بھی ہے اور تبدل بھی ، اس لیے ان کے نزدیک شعرو ادب کی تفہیم میں ماحول کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر الطاف کے مطابق شاعری انسانی کامرانی کی معراج اور انسانی تہذیب و تمدن کے سر کا تاج ہے۔وہ اسے انسان کی زندگی کی تکمیل کا بنیادی وسیلہ تصور کرتے ہیں ان کا خیا ل ہے کہ شاعری وہ طاقت ور صنف ہے جس میں انسان کی تمام تر قوتیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔ اسی وجہ سے شاعری انسان کو کامل سکون عطاکرتی ہے۔ ان کے یہاں شاعری کی ماہیت اور انسان کی زندگی میں شاعری کی قدرو قیمت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کے عملی تنقید کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ تجربات و الفاظ میں ناگزیر ربط تلاش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاعر تجربات کی پیش کش کے لیے غیر شعوری طور پر بہترین الفاظ تلاش کرتا ہے اور پھر وہ انہیں عمدہ ترتیب اور مناسبت سے آراستہ کرتا ہے۔
اردو میٹھی زبان ہے اور قومی زبان ہونے کے ناتے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اردو کو اپنی شناخت بنائے کیونکہ اردو ایک زندہ زبان ہے اور ہماری پہچان ہے اردوزبان کو زندہ رکھنے کیلئے ہم نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے اوراللہ کا شکر ہے کہ ہزارہ یونیورسٹی سے شائع ہونے والا رسالہ ’’ادراک‘‘ پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اس کا تقریباً ہر شمارہ اپنے قاری کی خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ یہ رسالہ پاکستان میں اردو ادب میں اچھا اضافہ ہے جس میں ہزارہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر نذر عابد اور ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کا اہم کردار ہے ۔
ڈاکٹر الطاف کے نزدیک شاعری بیش قیمتی تجربات کا موزوں ترین اظہار ہے۔ اس اظہار میں تین بنیادی شرائط ہیں اس میں سچائی ہو، خلوص ہو اور گہرائی ہو۔ شاعری اچھے اور بیش قیمت تجربوں کا حسین ، مکمل اور موزوں بیان ہے۔ان کے شعروں میں ہر رنگ موجود ہے وہ تاریکی کا ذکر بھی کرتے ہیں اور روشنی کا بھی، آدمی کا ذکر بھی حور کا بھی، ان کے پاس محبت کا پیغام بھی ہے اور نفرت کے خلاف جزبات بھی، بھوک کی اذیت کا ذکر بھی وہ کرتے ہیںاور خوشحالی تذکرے بھی، وہ خواب بھی دیکھتے ہیں اور سراب کا سفر بھی طے کرتے ہیں ہجرکے و وصال کے قصے اور کھانیاں وہ بیان کرتے ہیں، وہ سوال بھی اٹھاتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں، غرض ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کی مادری زبان پشتو ہونے کی باوجود اردو میں انہوںنے ہر رنگا رنگی ، ہمہ رنگیاور جل ترنگ کو سمایا ہوا ہے۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *