ریڈیو پاکستان ایبٹ آباد میں پشتو زبان کے شاعر اور ادیب عطاء الرحمان عطاء کے ہمراہ ہماری ملاقات پشتو سروس سروس کے براڈ کاسٹر جاوید اقبال افگار سے ہوئی کمال کی بات یہ ہے کہ ان کی مادری زبان چھاچھی(پنجابی) ہے مگر وہ پشتو زبان کے کمال کے شاعر اور ادیب ہیں اور ان کی ساری زندگی پشتو کی خدمت میں گزری ہے موضع چھمب تحصیل جھنڈ ضلع اٹک سے ان کا تعلق ہے لنڈی کوتل خیبر ایجنسی سے انہوںنے ابتدائی تعلیم حاصل کی کیونکہ ان کے والد محترم ملازمت کے سلسلے میں وہاں مقیم تھے انسیس سو ستر سے انہوںنے شاعری شروع کیانیس سو تھتر سے انیس سو ننانوے تک وہ فرنٹئیر کور میں ملازمت کرتے رہے ۔ پنشن حاصل کرنے کے بعد وہ ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور آج تک ریڈیو پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں ریڈیو کیلئے ان کے ناقابل فراموش خدمات ہیں وہ بطور ریسرچ لیسنر ، ڈرامہ نگار کے کام کرتے رہے ہیں زلمے کول اور ادبی کاروان جیسے پروگرام وہ کر رہے ہیں ۔
جاوید افگار پشتو کے بہترین نغمہ نگار ہیں اور بڑے شوق سے مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں وہ پریس انفارمیشن اور کلچر ڈیپارٹمنٹ سے بھی وابسطہ رہے اور گزشتہ تیس سالوں سے ان کے مضامین ملک کے مختلف اخبارات ، رسالوں اور مجلوں میں شائع ہو رہے ہیں اور اب تک ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں افگار زڑہ، ستا خکلا آئو زما مینہ، زاڑھ طرزونہ نوے سندرے، د مینہ مینہ، ازغنے لارے، امیل۔۔۔۔ تالیف تذکرہ ان کے غیر مطبوعہ کتابوں میں تہ لائق د کل صفات ئے لویہ خدایہ، حمدونہ پشتو ادب میں پہلی کاوش ہے خیر الابرارہ نبی ﷺ نعتیں بمعہ شعراء کے تعارف، پختونخواہ لمبے لمبے یہ مزحمتی شاعری ہے عکس پٹھان اردو کی کتاب ہے ، ڈالئی، علاقائی لغت پشتو، اٹک میں مقامی پشتو وغیرہ شامل ہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ جاوید افگارؔ پشتو شعر وادب کے حوالے سے تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔پشتو شاعری میں اپنے جدید اور منفرد اسلوب اور نثر میں جداگانہ اندازِ بیان کی بدولت کافی شہرت اور مقبولیت رکھتے ہیں۔پشتو شاعری کی بھر پور اورجاندارروایت کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقی فکر و نظر کو بھی سامنے لانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔جاوید افگارؔ ابتداء ہی سے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ان کے قول کے مطابقـ ’’بچپن سے کوئی بھی کتاب،اخبار یا ورق جو میرے ہاتھ لگا پڑھے بغیر نہ چھوڑا‘‘۔پشتو اور اردو ادب کےہر صنف کا اانہوں نے مطالعہ کیا۔
افگار نے ذہن و دل کی کھڑکیاں تازہ ہوا اور روشنی کے لئے کھلی رکھی ہوئی ہیں‘‘یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں نئے خیالات، متنوع موضوعات،مختلف لب ولہجے اور منفرد اسالیب دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جاوید افگار ؔ بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر ہیں۔ان کی غزلوں میں جوش و جذبہ،حُسنِ تخیّل،متانت و لطافت،سوز و گداز،حقیقی جذبات اور اظہار کی بے تکلفی پائی جاتی ہے۔
جاوید افگارکے پرُ امید لہجے میں کہے ہوئے اشعار سچے انسانی جذبات واحساسات سے معمور ہیں۔ وہ کسی مخصوص نظریے کا پرچاریا کسی خاص طبقے کی نمائندگی نہیں کرتے ان کی شاعری میں تازگی اور توانائی کا احساس ملتا ہے۔ اور ان کی شاعری ذہنوں کواحساس کی سطح پر جھنجوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ زندگی کے شاعر ہیں اور انکی شاعری کے مطالعے سے زندگی کے متعلق آگہی ملتی ہے ۔وہ غزل کو نئی جہتوں سے آشنا کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ الفاظ کے مزاج کو سمجھتے ہیں اور الفاظ کے مناسب استعمال پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔اسی لئے ان کے کلام میں روانی اور سلاست کے ساتھ ساتھ اُسلوب کی سنجیدگی اور ایک طرح کی بلند آہنگی اور روانی پائی جاتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہافگار شاعری میں فکر و جذبہ کو ساتھ ساتھ لے کرچلتے ہیں نہ فکر ان کے جذبہ پر غالب ہوتی ہے اور نہ جذبہ ان کی فکر پہ حاوی ہوتا ہے بلکہ وہ ان دونوں کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ فکر و خیال کے ساتھ ساتھ جذبہ و احساس سے معمور شاعری کرتے ہیں اگر چہ ابھی تک ان کا کوئی اردو شعری مجموعہ منظرِ عام پر نہیں آیا تاہم جاوید افگارؔ کے فکر و فن کو ذیل کے اشعار سے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
جزبوں کاشاعر ہونے کے ناتے جاوید افگارؔ کو اگر چہ زندگی کے موجودہ ماحول اور حالات سے یک گونہ مایوسی محسوس ہوتی ہے وہ زندگی کی فضاء کو شور و شر سے آلودہ پاتے ہیں ۔تاہم یہ مایوسی کی کیفیت بیزاری اور بے دلی تک نہیں پہنچتی۔وہ ان حالات میں بھی زندگی اور اس کے متعلقات سے اپنے اپ کو مستقل طور پر وابستہ رکھنا چاہتے ہیں وہ حالات سے پسپائی اختیار نہیں کرتا بلکہ زندگی کی جنگ ہمت اورحوصلے سے لڑنا چاہتا ہے اور یہی پیغام ان کی شاعری میں بنی نوع انسان کے لئے موجود ہے یعنی حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ ان سے کلی طور پر دلبرداشتہ نہیں ہوتے بلکہ ان تمام تر محرومیوں،ناکامیوں اور تلخ حقائق کے باوجودزندگی کو مثبت سوچ اور پرُ امید انداز میں گزارنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جاوید افگار ؔپیار ومحبت کو عام کرنا چاہتے ہیں وہ کسی ایک انسان سے نہیں بلکہ پوری انسانیت سے محبت کو اوّلیت دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ محبت سب کے لئے ہو اور محبت کے جذبہ کی صحیح عکاسی کی جانی چاہئے ۔پیار و محبت کے لفظوں کو محدود معانی میں استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ موجودہ دور انسانی رشتوں میں پیار محبت اور امن کا پہلے سے زیادہ متقاضی ہے۔
جاوید افگارؔ اپنی شاعری میں جدت پیدا کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے اپنی شاعری میں نئے خیالات اور موضوعات کو سمونے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ان کا مذکورہ بالا شعر ان کی جدت پسند ی پر دلالت کرتا ہے۔ ان معروضات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: جاوید افگارؔ کا شمار عہدِحاضر کے اُن شعراء میں ہوتا ہے جو اپنے افکار کے ذریعے امن و محبت اور انسان دوستی کا پیغام دیتے ہیں۔
افگار پشتو ادب میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔ اپنی قابلیت اور انتھک محنت سے وہ اپنے ہمعصر شعراء میں اپنا نام اور مقام بنا چکے ہیں مستقبل میں شعر و ادب کے حوالے سے ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ان کی درازیٔ عمر کے لئے ہماری دعائیں اور روشن مستقبل کے لئے نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *