قدم گن گن کے رکھتے ہیں کمر بل کھا ہی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے
کسی آرام دہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کوئی شاہکار تخلیق کرنا حسن ادب کھلاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیںکہ آپ کسی خاص جگہ بیٹھ کر لکھنے کی مشقت اٹھائے، اگر آپ کی طبیعت لکھنے پر آ مادہ ہو تو آپ کسی ہوٹل اور یاکیفے میں بھی بیٹھ کر اچھاخاصا ادب تخلیق کر سکتے ہیں، اگر جزبہ ہو تو بھیڑ اور شور وغل آپ کی تخلیقی صلاحیت پرہرگزا ثر انداز نہیں ہوگی، کسی پھاٹک کے قریب کسی ریلوے اسٹیشن کسی اڈہ کی ہنگامہ خیزیوں میں یا کسی ہوائی جہاز کے سفر میںآپ خیال کوقرطاس پر منتقل کر سکتے ہیں، جیل کی چاردیواریوں میں سلاخوں کے پچھے ادب تخلیق کرنے والوں نے لکھنے کی روایت قائم رکھی ہے اور جو کچھ بھی لکھا ہے اسے دوامی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
غبار خاطر ادب کاشہ پارہ ہے مولانا ابو الکلام آزاد اگر جیل نہ جاتے تو یہ ناممکن تھا کہ اس سدا بہار کتاب کاظہور ہوتا۔مولانا حسرت موہانی نے جیل میں چکی کے مشقت کے ساتھ ساتھ مشق سخن جاری بھی جاری رکھی۔البتہ یہ ضرور ہے کہ آپ جس ماحول میں بھی ہونگے اسکا اثر آپ پر بھی ظاہر ہوگا اور اور آ پکی تخلیق پر بھی،کیونکہ ادب تعلق انسان کے داخلی اور خارجی حالات سے ضرور ہوتا ہے اور کشمکش کے جنجال کے اندر رہ کر جو ادب تخلیق ہوتا ہے وہ پائدار ہوتا ہے او ر ہمیشہ خوش رھ کر خوشگوار ذندگی کوادبی تخلیقی کامیابی کی ضمانت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
عام طور پر ادب کو ایک کھیل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کھیل بھی ایسا جو بڑا قربانی طلب ہے الفاظ کو جوڑ کر ترتیب اور سلیقے سے لکھنے کے عمل کو ادب کا نام دیا جاتا ہے لیکن ہر لکھا ہوا ادب نہیں ہوتا یعنی ہر کاتب ادیب نہیں ہوتا،منطقیوں کی اصطلاح میں ہم کہ سکتے ہیں کہ یہاں عموم وخصوص مطلق ہے۔ ایک مترنم آواز کی طرح جو حساس ذہن پر ایک خوشگوار اثر ڈالتی ہے، یادوں کو تازہ کرتی ہے، قلم کی حرکت کو کو تیز کرتی ہے ، احساسات کو جگاتی ہے اور جو لکھتا ہے وہ اس آواز کو محسوس کرتا ہے ایک ایسا احساس جو جزبوں کو جگائے اور انسان کو عمل پر آمادہ کرے اور اسکے دل سے انسانیت کیلئے نفرت کی بجائے محبت پیدا کرے اور فرقہ واریت کو مٹائے اور منارت کو لایعنی سمجھے ،۔ بقول شاعر
ؔ چھوڑو بھی ان باتوں کو
کیا رکھا ہے ان باتوں میں
لکھنے کا کام ڈاکٹر بھی کرتے ہیںلیکن ان کا لکھاہوا تخلیقی عمل نہیں ہوتا ہے البتہ جن ڈاکٹروں کی طبیعت ادب کی طرف مائل ہوتی ہے وہ ان کے ہاں نسخے لکھنے کے عمل کے ساتھ ساتھ تخلیقی عمل کا سلسلہ بھی چلتا ہے ہم نے ایسے ڈاکٹروں کوبھی دیکھا ہے جن کوفریضہ مسیحائی سے ذرہ بھی فرصت ملتی ہے تو وہ ادبی شہ پارے تخلیق کرتے ہیں اور یا شعروں کے ذریعے انسانی جذبات اور سماجی رویوں کی ترجمانی کرتے ہیں یہ شعر اس کا ثبوت ہے جو کسی ڈاکٹر نے فراغت کے لمحات میں او پی ڈی میں بیٹھ کر لکھا ہے جو مریضوں کے نظر کیا جاتا ہے۔
ؔجذبہ موسیٰ ہی اب نایاب عالم میں ہوا
بے نوازش طور سینا ہو نہیں سکتا کبھی
لکھنے کے عمل کیلئے کسی نہ کسی محرک کا ہونا لازمی عنصر ہے غم اور خوشی انسان کے بنیادی جذبات اور احساسات ہیں اور ان دونوں کے مجموعے کا نام ذندگی ہے ادب پر جب غم کا جذبہ ہوتا ہے تو اس کے سوز میں بھی فرحت اور تسکین کا سامان ہوتا ہے اور جس ادب میں مسرت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اس میں بھی انسان کیلئے رہنمائی کا پیغام ہوتا ہے۔اگر چہ شاعر مشرق علامہ اقبال کو یہ گلہ رہا ہے کہ
ؔہند کے شاعر وصورت گے و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ لکھنے والے ایسے بھی ہیں جو لکھتے وقت ایک مترنم آواز اپنی سماعت سے ٹکراتی ہوئی محسوس کرتے ہیں اور وہ اپنے محبوب کے چہرے کو چاند اور سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور چشم غزالاں،میخانہ بدوش آنکھیںاور قاتل نگاہیں جیسی اصطلاحات محبوب کی آنکھوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔محبوبہ کی گردن کو ہرن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ تصور یار میں کھوکر اور نقاب حسن اوڑھ کر وہ زلف شبگوں،زلف دراز،زلف مشکیں اور زلف معطرجیسی تراکیب وضع کرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیںجن پر یہ ساری تراکیب اور اصطلاحات صادق آتی ہیں اور ادب کے متعلق وہ لکھتے ہیں’’ کہ بے ادب ہوناہمیں گوارا نہ تھااسلئے ہم صاحب ادب ہوئے ویسے تو ہمارے آباء ہمیں بے بہا ادب سکھانے کی سعی کرچکے تھے اور اسی آرزو کو لیئے صاحب گور ہوئے مگر ہم ادب سے ذیادہ آداب بجالینے میں مشغول پائے گئے اور بھلا ادب کا فائدہ کیا جودبے اسے دبائے جائو اس جنگل کے قانون میں تو باادب گھر کی مرغی بن کے رہ گیا اور مرغی بھی وہ جو نہ انڈے دے اور نہ بچہ‘‘۔
آداب کے فوائدتو بیش بہا ہیں [بہ نسبت ٹریجڈی اور ی جیکشن ادب کے] اور کیا ہی اچھا ہوتا جب آداب کے ساتھ ساتھ بلو مارچ پن کا بینڈ بھی بجادیا جائے تو پھر آپ کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑہائی میں گویا آپ تو تر ہوگئے آپ کی بیگم بھی بے غم اور والدین کوتو چائے کمائو پوت اور جو یہ نہیں وہ گویا سڑا ہوا انڈاہے ۔پس ثابت ہوا جو ادب نہ جانے وہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا اور اب تو دھوبی میںنے بھی کتے پالنے چھوڑ دئے ہیں ان آداب کو آپ چاپلوسی کہ دیں یا کہ دنیاداری اکیسویںصدی کی یہ سب سے اہم ضرورت ہے اور جو لوگ اس عقل سے پیدل پائے گئے وہ در حقیقت بھی پیدل ہوئے ۔یہ ان کا حسن تجزیہ ہے،آپ کیا کھتے ہیں؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *