ملک عزیز میں کروڑوں افراد غربت کے کم از کم معیار سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اور گندگی کے ڈھیروں سے کھانا کھانے پر مجبور ہیں، اکثریت کو بمشکل دو وقت روٹی کا نوالہ ملتا ہے، پاکستان میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد روزانہ ایک ڈالر اور 12کروڑ افراد بمشکل دو ڈالرز یومیہ پر زندگی کی ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔فرقہ واریت، جہالت ،ناخواندگی، سیاسی اور سماجی انتشار، مذہبی ، لسانی اور گروہی جھگڑے اور دہشت گردی اندرونی طور پر معاشی لحاظ سے کمزور کر دیا ہے۔ کون شہید ہے کون کافر ہے۔ ہمارے ہاں ہر شخص اپنا اپنا سچ اپنے اپنے تعصبات اور اپنے سماجی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر میں دیکھتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمران منصفانہ احتساب کا کوئی ایسا نظام نافذ نہ کر سکے جس سے پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور بھی مستحکم ہوتا اورکرپشن کے امکانات بھی قابل لحاظ حد تک کم ہو جاتے ۔
آج ہماری سیاست کاروبار بن چکی ہے، کرپشن اور بدعنوانی کا ناسْور ہمارے سماج، معیشت اور سرکاری اداروں کی رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں تیزی سے ہو رہا ہے۔
خاص کر80کی دہائی کے بعد انہوں نے اس ملک میں بدعنوانی‘ کرپشن‘ اقربا پروری اور قانون شکنی کے ناسور کو بری طرح پروان چڑھایا۔
12 مارچ 1949ء کو قرارداد مقاصد تو منظور ہوگئی مگر پاکستان کو حقیقی فلاحی اسلامی ریاست بنانے کی طرف قطعی اقدامات نہ اٹھائے گئے جسکے نتیجے میں مختلف مذہبی جماعتوں نے اپنی اپنی مذہبی اور فرقہ وارانہ تعبیروں سے پاکستان کے مسلمانوں کو مختلف مسلکوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے شراب اور جوئے پر پابندی لگائی۔ جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا اور پاکستان میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا مگر 1977ء میں بھٹو حکومت کو ختم کرنے کیلئے الیکشن میں دھاندلی کی تحریک کو نظام مصطفی تحریک کا نام دیکر مذہب میں تشدد کے عمل کا آغاز کردیا گیا اور یوں بھٹو کو ان کے خدمات کا صلہ دیا گیا۔یہ دوسری بات ہے کہ ان کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو میں کئی شخصی خامیاں ہونگی مگر انہوں نے بڑی دلیری سے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا اور آج تک وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
ماضی گواہ ہے کہ روایتی افسرشاہی پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے جن کی وجہ سے اگر کوئی حکمران اہم اور ضروری فیصلہ عوام کے مفاد میں کر بھی لے تو اس پر عملدرآمد سرخ فیتے کی نذر ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان کی بنیاد اور اساس میں عدل اور اسلامی فلاحی ریاست کا مقصود تھا جس کے مطابق پاکستان حقیقی معنوں میں معاشی لحاظ سے مضبوط اور سود سے پاک قانون کی حکمرانی پر ایمان رکھنے والا ملک ہو اوریہاں میرٹ کا دور دورہ ہو ایسا نہ ہو سکاجو ایک المیہ ہے۔
واپڈا‘ ریلوے‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل کی تبا ہی کی بڑی وجہ کرپٹ بیورو کریسی‘ نااہل اور کرپٹ وزراء اور طاقتور حکومتی عناصرہیں جو اس ملک اور عوام کی سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کی ہوس پوری کرنے کیلئے خون آشام چمگادڑوں کی طرح خون ستر برسوں سے پی رہے ہیں ۔ آج کے جاگیردار اور وڈیرے جن کے ہاتھوں میں عنان سیاست ہے ان کے آباؤ اجداد کی اکثریت انگریزوں کیلئے گھوڑیوں اور شکاری کتوں کے پالنے والے غداران ملت تھے جنہیں ننگِ وطن اور ننگِ دین ہونے پر انگریزوں نے اپنی وفاداریوں اور خدمات کے صلے میں لاکھوں ایکڑ زمینیں عنایت کیں اور آج وہ پاکستانی عوام کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔
آج کے مادی دور میں انسان آسائشوں میں گھر کر ایک دوسرے سے دور ہو رہا ہے رشتوں میں دڑاڑ پڑ رہی ہے ، سب ایک دوسرے سے بیزار نظر آتے ہیں کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں چھوٹے بڑوں کا احترام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں بڑے چھوٹوں کی غلطیوں کو معاف نھیں کرتے نا شفقت کا رویہ اپناتے ھیں جو ایک مذہب انسان کا خاصہ ہوتی ہیں وہ سب روایات عادات کیفیات ختم ہو رہی ہیں ، اسی وجہ سے اب خون محبت اور رواداری کے رشتے بوجھ بن کر رہ گئے ہیں ہمیں اپنے معاشرے کو بچانے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ھوگا ہر فر د ہر رشتہ ہر گروہ اپنے اپنے طور پر اٹھ کھڑا ہو گا تو ہی ہم اپنے معاشرتی نظام کو اپنی روایات کو اپنے رشتوں کے تقدس کو بچا سکیں گے ورنہ ہم احساس اور محبت والے انسانوں سے محروم ہوتے جائیں گے اور صرف مشینی انسان بچ جائیں گے جو کسی کیلئے فائدہ مند نا ہونگے صرف اپنے مقاصد کوہی سمجھنے والے ہونگے جیسا کہ آجکل دکھائی بھی دینے لگا ہے ، پھر مشینی انسان کے معاشرے میں سب دکھ تکلیف میں مبتلا ہوتے جوئیں گے ہر فر د اپنی اپنی جگہ تنہا ھوتا جائے گا کوئی کسی کو اپنے ھونے کا احساس نا دلا سکے گا ، سب دکھی پریشان ہونگے اور ایک بیمار معاشرہ پروان چڑھے گا جو انسانیت سے بے نیاز اور فلاح سے محروم ہوگا ، جس کا مظاہرہ اکثر و بیشتر ہونے بھی لگا ہے آج اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ہر فرد پریشان ہے ہر گھر میں بیماریاں تکالیف ڈیرہ ڈالیں ہیں جب محبت الفت احساس سے خالی انسان گھر ملک ہونگے تو پھر ظاہری بات ہے خالی جگہوں پر کسی اور نے تو براجمان ہونا ہے وہ خواہ کسی بھی شکل میں ہو ،ہمیں خود کو بچانا ہے انسانیت کو بچانا ہے اپنے انسانی تشخص کو بحال رکھنا ہے ، محبتوں اور آپس کے احساس کو بڑھا کر یہ انسان اور انسانیت کی بقا کیلئے اشد ضروری ہے۔
حکومت چاہے تو ایک دن کے اندر ہی مہنگائی پر کنٹرول کر سکتی ہے مردہ اور بیمار جانوروں کا گوشت سپلائی کرنے والوں کو روکا اور ٹوکا جا سکتا ہے۔ دودھ کے نام پر زہر بیچنے والوں کی ایسی کی تیسی کی جا سکتی ہے۔ حکومت نیت کرے تو سبزیوں کی مہنگی ترین قیمتیں سابقہ سطح پر واپس آسکتی ہیں مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ سرکاری‘ کارندوں کی اکثریت کے منہ کو حرام لگ چکا ہوا ہے حکومت کے کارندوں کی اکثریت رقم حرام سے پل رہی ہے کوئی مائی کا لال آتی ہوئی دولت کو بھلا کیوں روکے گا۔۔۔!۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *