تاریخ شہادت دیتی ہے کہ قلم ایک ہتھیار ہے جس کے استعمال کے فن سے واقف افراد نے ہی ہر نئے موڑ میں قوم کی رہنمائی کی ہے۔ انقلاب سے پہلے فکری و ذہنی انقلاب پہلا معرکہ ہے۔ قلم میں وہ طاقت ہے جو ہمیں زمانہ کی حقیقتوں سے روشناس کر تی ہے۔
زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے
زلف ورخسار کی جنت نہیں کچھ اور بھی ہے
بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی دنیا میں
عشق ہی ایک حقیقت نہیں کچھ اوربھی ہے
اہل قلم کی سب سے پہلے معاشرے میں اپنی اہمئت کا احساس دلائیں، اور یہ تب ممکن ہے جب وہ معاشرتی بیماریوں کے خلاف قلم کا استعمال بطور نشتر کریں اور جان و مال کی فکر سے بالا تر ہو کر قلم کی دھاروں کو تیز کر دیں۔یوں تو اس قوم میں وہ شاہ ولی اللہؒ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنا فریضہ پورہ کیا اور تاریخی تسلسل کے ساتھ ان کی جماعت نے طاغوت کو ہر دور میں للکارا اور قلمی اور علمی جد وجہد جاری رکھی ۔آج تک سماجی، دینی، اخلاقی اور ثقافتی ہر ہر محاذ پر پسپائی، بزدلی اور سمجھوتوں کی شکل میں مسلمان بھگت رہے ہیں۔ ان تمام اثرات میں مہلک ترین یہ ہے کہ قلم صرف روٹی ،مکان اور محض نعروں کا محرک بن گیا ہے۔
موجودہ حالات میں جہاں قوم کی ہر محاذ پر پسپائی و اضمحال کی کیفیت ہے اس سے ادب بھی اپنے آپ کو بچائے نہ رکھ سکا۔ دورِ حاضر میں ادب صرف حالات کے خلاف ایک صدائے احتجاج بن گیا ہے حالات کی منظر کشی اور جذبات کی پیشکشی مسائل کا حل نہیں ہوتی البتہ کچھ حد تک سامع یا قاری سے دادِ فن ضرور حاصل کر جاتی ہے۔ ملک کی سیاسی بے ہنگامی نے ادب کو بھی انحطاط کا شکار کر دیا ہے۔ اب قدرے چند ہی محبّانِ قلم و ادب کو اپنا ذریعہ اظہارِ جذبات و احساسات بنا تے ہیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ اعلی مقاصد اور اولوالعزمی پیشہ وری کا شکار ہو جاتی ہے اس طح افراد شاعرِ محض یا ادیبِ محض بن کر رہ جاتے ہیں۔حالانکہ ادب ایک ایسا سمندر ہے جس میں ہر نوع کا دریا ملتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ان قوموں نے ہر قسم کے ادب کی ترویج کی۔ لیکن ہمارے ہاں ادب کے نام پر سوائے فلمی ، سیاسی ، جاسوسی ادب کی ہمت افزائی نہیں ہوئی بلکہ صحیح معنوں میں آج تک اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔البتہ بعد از موت کسی کو خراجِ تحسین کیلئے ایک تعزیتی ادب کا ادب میں فلسفہ بنایا گیا۔
دورِ حاضر میں جہاں مسلمانوں کی جان و مال و عزت و ناموس تباہی کے دہانے پڑے ہیں ۔ اپنی حقانیت کو منوانے اور ظالم کے سر کی بجائے دل جیت کر اس کو تاریخ میں اپنے ہم پلہ طاقتور رقیب بننے کے اعزاز سے ہمکنار کرنے کے لئے تلوار یا بندوق کی نہیں فکری سمت نمائی کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف ادیب کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس واضح فکر و نظریہ موجود ہو۔ جب تک ادیب کے پاس فکر متعین نہ ہو ، نصب العین مقرر نہ ہو ، نہ وہ خود اپنی ذات میں کوئی انقلاب لا سکتا ہے اور نہ قوم کے بکھرے ہوئے افراد کو یکجا اور یک رخ کر سکتا ہے۔ جب تک ادب کے ساتھ ایک نظریہ اور مقصد شامل نہ ہو انسانی کردار کی تعمیر اور ایک وحدتِ قوم کا تصور ِ حقیقی نا ممکن ہے۔
آج اگر غیر جانبداری سے پوری شاعری جس میں نظم ، غزل نثر وغیرہ سب شامل ہیں ان کا بغور مطالعہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مجموعی طور پراسمیں دین بیزاری مادہ پرستی اور عشق کے پردے میں فحش سفلی جذبات کو تقویت دی گئی دین ا بیزار اور اخلاق بیزار فلسفوں اور فلسفیوں کی جگالی کی گئی ہے اس وجہ سے نہ یہ شاعری کا حوالہ بن سکیں نہ کوئی ضرب المثل۔ اور نہ کسی مشاعرہ میں انہیں عزت و مقام مل سکا۔ نمائشی قبیل کے شعراء او ادباء اس کو زندہ رکھنے کے لیے بحث و مباحثے ضرور کرتے ہیں لیکن وہ ادب ہی کیا حسے ایک عام ذہن دل سے قبول نہ کرے۔ نام نہاد ادب کا خواص میں چاہے خوب چرچا ہو لیکن عم انسانوں میں اگر اس کو قبولیت نہ ملے تو یہ نہ صرف وقت بربادی ہے بلکہ قتل عام کی طرح کا جرم بھی یعنی ان صلاحیتوں کا قتل جو اگر کسی تعمیری اور مثبت فکری پیعام پر لگیں تو پوری قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے چونکہ ایک طاقتو ر ادب قوم کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتا ہے اس لئے ہر لغو ادب قوم کی تعمیری فکروں کو ضائع کرنے والا ادب ہے بد قسمتی سے اس چل چلاو میں ادیب اور شاعربھی کود پڑے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ادب پرپر قدغنیں نہیں لگائی جا سکتیں ، احساس اور خیال ہر شخص کے حصے میں نہیں آتا یہ بھی ایک الہام ہے اور ہر احساس اپنے اظہار کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے اور احساس کے اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ قلم ہے جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے احساس اور تخیل کا ہنر عطاء کیا ہے وہ قوم کے لئے ایک نعمت ہے اس شخص پر قد غنیں لگا کر فکر اور تخلیقی صلاحیتوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جسطرح کسی بھی شخص کو کسی بھی پیشے یا علم و فن میں مہارت حاصل کرنے اور نام اونچا کرنے کی خواہش سے نہیں روکا جاسکتا اسی طرح کسی کو قلم کے کارواں میں بھی شامل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا لیکن جہاں دوسرے پیشوں یا علوم و فنون میں تربیت اور اصولوں کی پابندی لازمی ہوتی ہے اسی طرح ادب و شاعری میں بھی لازمی ہے ہر اہل ِقلم کو پہلے محنت کر کے انھیں سیکھناچائیے نظریہ اور شعور کے ساتھ۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *