ہمارے ہاں جب بھی کوئی شخص دورانِ گفتگو انگریزی کے تین چار الفاظ استعمال کرتاہے توہم سمجھتے ہیں کہ یہ شخص تو بہت پڑھا لکھا ہے۔ اور اگر کوئی شخص اس کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت فیشن بھی کرتا ہو تو چار چاند لگ جاتے ہیں یا پھر وہ فیشن کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت انگریزی کابھی استعمال کرے تو دلوں کو چھونے لگتا ہے ہم بہت متاثر ہو جاتے ہیں اور اسے تعلیم یافتہ تصور کرنے لگتے ہیں ۔
فیشن اور کچھ انگریزی کی وجہ سے اس کی بہت عزت کرتے ہیں ایک شخص جو بلکل بھی پڑھا لکھا نہیں ہوتا مگر فیشن اور انگریزی کی وجہ سے ہم اُسے پڑھا لکھا بنا کر سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ احساس برتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہم احساس کمتری میں ، جو کہ دونوں بیماریاں ہیں اور وہ بھی کا حد تک خطرناک۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے ایک شخص جوبہت تعلیم یافتہ ہوگا۔اس کے پاس بہت ساری ڈگریاں ہوں گی لیکن اُس نے بد قسمتی سے انگریزی پر زیادہ توجہ نہیں دی ہوگی یا پھر اُس نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہو گی ۔ یا پھر اُسے انگریزی آتی ہوگی استعمال کرنے سے کتراتا ہوگا ، یا پھر شاید زندگی بھر اس نے انگریزی پڑھی ہی نہ ہو، صرف دوسرے علوم حاصل کئے ہوں ۔ عربی ، فارسی یا پھر اُردو میں سارے علوم پڑھے، دینی علوم کو ہی لے لیجئے جو تقریباََ عربی فارسی اور اُردو میں ہیں جو مشکل ترین علوم ہیں جنہیں سمجھنا اور پڑھنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔ ایسے علوم والے تقریباََ سیدھے سادھے ہوتے ہیں ۔ نہ صرف ایسے علوم والے بلکہ ہمارے ہاں جو کالجوں اوریونیورسٹیوں میں دیگر معاشرتی علوم کے جو طلبہ ہوتے ہیں وہ بھی تقریباََ انگریزی پڑھ کر بھی انگریزی سے ناواقف ہوتے ہیں حالانکہ دیگر سماجی اور معاشرتی علوم کے بارے میں وہ جانتے بھی ہیں مگر جب دورانِ گفتگو اگر وہ بدقسمتی سے فیشن اور انگریزی الفاظ کا استعمال نہیں کرتے تو ہم یہ سوچ کر انہیں رد کر دیتے ہیں کہ یہ تو بلکل تعلیم یافتہ نہیں ہیں کیوں کہ انہیں انگریزی نہیں آتی ۔
تقریباََ ہمارے ہاں لوگ اس خوش فہمی یا غلط فہمی میںمبتلا ہیں ہم انگریزی کو علم سمجھتے ہیں کاش ہمیں کوئی سمجھا دے کہ انگریزی کوئی علم نہیں بلکہ اُردو کی طرح ایک زبان ہے ۔
ہم تعلیم یافتہ صرف انگریزی کے کچھ الفاظ بولنے والوں کو سمجھتے ہیں ۔ آپ چاہے جتنی بھی تعلیم حاصل کرو اگر آپ کو دورانِ گفتگو انگریزی کا استعمال نہیں آئے گا تو سمجھ لیجئے کہ ان کی نظروں میں آپ کی تعلیم بلکل بے کار ہے ۔
مثال کے طور پر ہم میں سے ایک ایسا شخص جو بلکل پڑھالکھا نہیں ہوتا ،وہ کبھی زندگی میں سکول نہیں گیا ہو،وہ اگر نوکری کے غرض سے کسی ملک میں نوکری کرنے کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں پر انگریزی ہی انگریزی بولی جائے اور وہ بھی خالص انگریزی۔وہ شخص وہاں پانچ چھ سال گزارنے کے بعد جب ہمارے پاس آتا ہے اور فر فر انگریزی بولتا ہے تو کیا ہم اُسے تعلیم یافتہ کہیں گے ؟ چلو ہم تو ان کی حقیقت جانتے ہوں گے مگر جب وہ اُن لوگوں کے سامنے جو اُسے نہیں جانتے ہوں گے انگریزی بولتا ہوگا تو وہ لوگ اُسے ضرور تعلیم یافتہ تصور کرتے ہوں گے کیونکہ ہمارا یہی تصور بن چکا ہے نجانے ہم کب تصوراتی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آئیں گے ،اور حقیقت یہی ہے کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے جیسی بھی ہے اچھی ہے یا بہت بُری ہے مگر اپنی تو ہے اور یہی حقیقت ہے کیونکہ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ،اپنی زبان میں ترقی کرنے کے بجائے ہم انگریزی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور انگریزی ہم سے کوسوں دور ، ہم سمجھتے ہیں کہ انگریزی ہی سب کچھ ہے ،انگریزی ہی ہماری بھلائی اور ترقی ہے انگریزی کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہم انگریزممالک کی ترقی کی وجہ انگریزی زبان سمجھتے ہیں کاش ہمیں کوئی بتا دے انگریزی ان کی زبان ہے ،ترقی کی وجہ نہیں میں انگریزی کا مخالف بلکل بھی نہیں ، ہر زبان سیکھنی چاہیئے ،چاہے عربی ہو فارسی ہو ترکی ہو یا پھر انگریزی ، لیکن کسی ایک زبان کو ترقی سمجھ کر اپنی زبان کو چھوڑ کر بہت بڑی نا انصافی ہے نہ صرف زبان کے ساتھ بلکہ خود کے ساتھ بھی ۔
’’غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
اے جانِ وفایہ ظلم نہ کر ‘‘
انگریزی کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے ہاں جا بجا گلی کوچوں میں انگلش لینگوج سنٹرز کھولے گئے ہیں اور گارنٹی کے ساتھ سکھانے کا وعدہ بھی کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے آج کل کے طلبہ و طالبات دھڑا دھڑ داخل ہو رہے ہیں کیونکہ وہ تعلیم یافتہ بننا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہوچکا ہے کہ بھلے تعلیم حاصل کرو یا نہ کرو لیکن انگلش کو ضرور حاصل کرو۔
اگر خود کو تعلیم یافتہ کہلوانا چاہتے ہو تو فیشن کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی سیکھو،اور اگر دورانِ گفتگو انگریزی الفاظ کا استعمال نہیں کرے گا تو یقین جانئے ہم تعلیم یافتہ تصور نہیں کریں گے مگر ایک بات کا خیال ضرور رکھو اپنی چال مت بھولو کیونکہ
کوّا چلا ہنس کی چال اوربھول گیا اپنی چال۔
انگریزوں سے نفرت اور انگریزی سے پیار بڑی عجیب بات ہے ۔
’’ہم کتنے بیوقوف ہیں خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ‘‘

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *