شیر شاہ سوری کے دور میں عوامی فلاح کے لئے بنائے گئے اداروں میں ایک اہم اور بنیادی ادارہ محکمہ مال کا بھی قائم کیا گیا انگریز دورمیں چند مفاداتی ترامیم کرکے اس ادارے کو بحال رکھا نتائج کے حوالہ سے ہردو ادوار کی کہانی الگ ہے اور اسکی وجوہات بھی واضح ہیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیں تو ان ادوار کے صفحات کو پلٹنا ناگزیر ہوگا اس حوالہ سے ہڑتال شیر شاہ سوری کے دور میں ہوئی ہوگی نہ انگریز دور میں لیکن ہماری ساٹھ ستر سالہ تاریخ میں ہر ادارہ اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑتا نظر آرہاہے ہاتھ پاو¿ں باندھ کر کسی پہلوان کو اکھاڑے میں اتارنا عقلمندی نہیں اداروں کو بے بس اور نہتا کرکے عوامی خدمت پر مجبور کرنا جبر کے مترادف ہے۔
اس سے بڑ ھ کر اور کیا المیہ ہوگا کہ نظام ہی اداروں کو کرپشن پر مجبور کرتا ہے اور پھر ان اداروں کو مطعون بھی کیا جاتا ہے خاص کر محکمہ مال اس زد میں ہے پی ٹی اے کی موجودہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لگا کر سیاسی میدان میں نکلی اور کے پی کے میںحکومت قائم کی اور اس کی حکومت نے روز اول سے پٹواریوں کو نشانے پر رکھا اور محکمہ مال کو کرپشن سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا جسے پٹواریوں نے بھی خوش آئند قرار دیتے ہوئے حکومت کو بھر پور تعاون کی قسم اٹھاکریقین دھانی کرائی اور اپنے مسائل بھی حکومت کے سامنے رکھے مگر ان کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے پٹواریوں کا میڈیا ٹرائل جاری رہا اور پٹواریوں نے اس رد عمل میں ہڑتال کر دی اور انہوںنے استعفے قیادت کے پاس جمع کرادئے ہیں اور پٹواریوں کی ایکشن کمیٹی بنا دی گئی جس کا چئیرمین پٹواری ایسوسی ایشن کے سابق صوبائی صدر سرفراز عباسی کو چنا گیا ہے ان کی قیادت میں پٹواری برادری متفق ہے اور محکمہ مال کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔محکمہ مال میں کرپشن کیوں ہوتی ہے؟ کون یہ کرپشن کرواتا ہے یہ الف لیلیٰ کی داستان سے کم نہیں جو حقائق پر مبنی ہے اور سرفراز عباسی کے پاس یہ داستانیں محفوظ ہیں جس پر کسی اور موقع پر قلم اٹھایا جائیگا۔
ستم ظریفی یہ کہ ہم غلامانہ دور کے قائم کردہ ایک ایسے شکنجے میں پھنس چکے ہیں کہ ہرادارہ اپنی بقا اور تحفظ کی جنگ لڑتا نظر آتا ہے ہر ادارہ اپنی نوعیت کے اعتبار تحفظات کا شکار ہے اور ہر ادارہ دوسرے ادارے کو اس کا سبب سمجھتاہے جتنا سطحی ذہن ہوگا اتنا سطحی فیصلہ ہوگا مسائل کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوگا اسی کا شکار محکمہ مال بھی ہوا بجائے بنیادی مسائل پر توجہ دی جاتی کہ جس سے یہ صورتحال پیدا ہوئی بجائے ہرایک نے اسے اپنے اپنے طور برابھلا کہا ان کی تذلیل کو مسائل کو حل سمجھا مسائل کی جڑ پٹواری ہے نہ پولیس مین بلکہ اصل جڑکہیں اور ہے انھیں لاکھ برا بھلا کہیں مسائل حل نہیں ہوں گے جب تک ہماری قومی سوچ اجتماعی مفادکی بنیاد قائم نہیں ہوجاتی ہماری سوچ کے زاوئیے درست نہیں ہوجاتے اس جوے میں جتے رہ کر دماغ کے بجائے زبان سے کا م لے تے رہیں گے آج غلامی کے پردے چاک ہورہے ہیں حقوق تسلیم کرنے اور کرانے کا دور ہے ہر ادارہ اپنی جگہ مسائل کا شکار ہے ڈاکٹر اپنی جگہ پریشان ہیں اساتذہ کے اپنے مسائل ہیں پٹوار کی ہڑتال سے محکمہ مال پورے صوبہ میں مفلوج ہوچکا ہے ڈومیسائل بنانے والے سے لےکر فرد کی ایک نقل لینے والے تک اور عدالت میں انصاف کے لئے جانے والے تک سب مشتعل ہیں جہاں عوام پریشانی سے دوچار ہے وہاں قومی اداروں کا وقت ضائع ہورہا ہے انگریز دور سے محکمہ پٹوار کے لئے ماہانہ پانچ روپے سٹیشنری پندرہ روپے آفس کا ماہانہ کرایہ اور صرف دس روپے بستہ الاو¿نس مقرر کیاگیا جو بعد آزادی نصف صدی گزرنے کے باوجود پٹوار کی تقدیر میںمستقل لکھ دیا گیاہے جو پٹوار ہی نہیں پوری سوسائٹی کے ساتھ ظلم ہے ایک پٹواری جوکہ نصف صدی قبل شاید اس بجٹ سے بخوبی اخراجات کرسکتا ہو آج ہزاروں میں یہ اخراجات کیسے پورے کئے جاسکتے ہیں یہ سوالیہ نشان ہٹانے کےلئے آج کی مقتدرہ کو باہمی مشاورت کی عمل اختیار کرنا ہوگا محکمہ مال صرف پٹواری کانام نہیںکہ صرف اسے قربانی کا بکرا بناکر ذبیحہ دیاجائے بلکہ اس پورے سٹرکچر میں جہاں جہاں سقم موجود ہے اس میں بنیادی اصلاحات کے زریعے عوام اور محکمہ مال کے مسائل حل ہوسکتے ہیں کرپشن کے اژدھے کو پٹا ری میں لانے کی ایکسرسائز میں تمام تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا سینکڑوں بیگاریں انجام دیکر صرف دو کاموں کی تنخواہ پانے والا پٹواری آج اپنے مسائل کی جنگ میں الجھ بیٹھا ہے پٹواری کے فرائض کا تعین نصف صدی قبل کے شیڈ ول نکل کر موجودہ وقت کے مطابق طے کرنا ہو گا زلز لہ کی ناگہانی آفات ہوں یا سیلاب پولیوکے قطرے پلانے والا پٹواری اور عام دنوں میں میزبانی کے فرائض سرانجام دیتا نظر آتا ہے گویا تمام مخکمے اپنا اپنا کام لے کر سیٹرھی کھینچ لیتے ہیں اور پھر پٹوار کی کرپشن کے نئے غوغے بلند ہونا شروع ہوجاتے ہیں پٹواری کی قسمت سمجھ سے بالا تر ہے پچاس سال سے ہر موقع پر زمہ داریاں بھی سونپی جارہی ہیں اور کرپشن کے الزام بھی لگائے جارہے ہیں حقیقت یہ کہ تربیت یافتہ افراد خواہ کسی شعبے سے وابستہ ہوں وہ قوموں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں سسٹم کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ ایسا ماحول فراہم کرے جس سے ادارے ٹکراو¿کی پالیسی پر گامزن ہونے کی بجائے قومی مسائل حل کریں صرف پٹوار یا پٹواری کو نشانہ بناکر چاندماری سے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک حصول انصاف تک ان تمام رکاوٹوں کاسنجیدگی سے جائزہ نہیں لیاجائے گا جو اس سارے عمل کا پس منظر اور پیش منظر ہے مسلم حکمرانوں کی یہ روایت رہی کہ وہ سائل کو جھڑکنے کے بجائے نہ صرف داد رسی کرتے بلکہ حوصلہ افزائی کرتے تاکہ قوم کے افراد میں حقوق حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوآج اسکے برعکس حقوق طلبی میدان جنگ سے کم نظر نہیں آتی آج پورا ملک جس نازک دور سے گزر رہاہے وہ سب کے سامنے ہے متحد ہوکر پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی ادا روں کے ساتھ یکجہتی کا وقت ہے نہ کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر مزید بگاڑ اور انتشارپیدا کیاجائے اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ مسائل کا حل عقل کے استعمال سے ممکن ہے ناکہ انتشار سے لہذا ایک دوسرے کو کوسنے کے بجائے باہمی مشاورت سے مسائل کا نکالاجائے جب تک ملازمین کے جائز حقوق پورے نہیں کیئے جائنگے اس وقت تک سوسائٹی کو کرپشن کے عذاب سے گلو خلاصی نہیں ہوسکتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتیازجدون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *