انوکھے فکر و اندازکے شاعر جون ایلیا عرصہ پہلے جو نشاندہی کی تھی لگتا ہے کہ دنیا اس سے دور چار ہے اور وہ وقت آگیا ہے کہ انسان کو انسان سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا۔
عیش امید ہی سے خطرہ ہے
دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
آج کل فرصت کے باوجود لکھنے کا عمل مشکل ہو رہا ہے ہزار کوشش کے باوجود عنوان کورونا سے مربوط ہو جاتا ہے۔ پوری دنیا حالت جنگ سے دوچار ہے اور ہر طرف افرا تفری اور خوف ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کا مکمل لاک ڈائون ہے جس نے پوری دنیا میں ہر نوعیت کی سرگرمیوں پر جمود طاری کردیا ہے۔ چین کے شہر ووہان سے نکلنے والے کورونا وائرس نے دنیا کے تقریبا تمام ممالک کو متاثر کیا ہے اور موجودہ حالات کو تیسری عالمی جنگ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جارہا ہے وہ ہے سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا ہے ۔ اس کے نتیجے میں کاروبار زندگی ٹھپ ہیں اور سب سے زیادہ نقصان طلباء کا یہ ہوا کہ اس سال منعقد ہونے والے میٹرک اور انٹر کے امتحانات کینسل ہوگئے ہیںاور دن رات ایک کرنے والے محنتی طالب علم سر پکڑ کے بیٹھ گئے ہیں اور انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔
کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والے صورت حال نے جہاں دنیا کو پریشان کیا ہے وہاں ماحول پر اس کے اچھے اثرات پڑے ہیں ۔ انسان نے آلودگی کی انتہا کر دی تھی لاک ڈائون کی وجہ سے ماحول پاک اور صاف ہوگیا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں کارخانوں کی آلودگی ختم ہوگئی ہے اور قدرت کا حسن نمایاں ہو گیا ہے ہر طرف پاک اور شفاف منظری کشی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔دوسری طرف کورونا کے خوف نے دوسری بیماریوں کو بھی دبا دیا ہے اور لوگ پیچیدہ بیماریوں کو بھی بھول گئے ہیں۔
اس دوران ہمیں دور دراز سفر کا موقع ملا جس میں ضلع طور غر (کالا ڈھاکہ) کا سفر بھی شامل ہے اور یہ جاننے کا موقع ملا کہ دور دراز لوگ کس پریشانی سے دوچار ہیں۔ملک میں لاک ڈاون نافذ کئے جانے کے باعث مزدوروں، غریب اور متوسط طبقات کے پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ لاک ڈاون اور پھر روزگار سے محرومی کے ساتھ ساتھ سماجی دوری کے اصول نے ملک میں افرا تفری کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ذرائع حمل و نقل پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملک کے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بعض اپنی زندگیوں سے محروم بھی ہوگئے۔
اس دوران مخیر حضرات اور رضاکارانہ تنظیموں کا کردار مثالی رہا ہے جنہوں نے ان غریبوں دیہاڑی دار مزدوروں کے کھانے پینے کا بندوبست کیا ہے اور دور دراز علاقوں میں تنظیمیں بے سہارا لوگوں کی مدد کررہی ہے۔ ان مشکل حالات میں جو مخیر لوگ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مالی مدد کر رہے ہیں یقینا ان کا کر دار مثالی ہے۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ حکومت خصوصی طیاروں کے ذریعہ بیرون ممالک مقیم اہل وطن کو واپس لاتی رہی لیکن اندرون ملک ہی پھنسے غریب لوگوں کو سہولیات پہنچانے میں بالکل ناکامی کا کاسامنا ہے۔دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ جن میں اکثریت غریب اور دیہاڑی دار ہیںکورونا کے حالات سے پہلے بغرض مزدوری شہروں میں مقیم تھے۔ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے وہ بے روزگار ہیں اور پبلک ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے سخت ترین مشکلات کا شکار ہیں۔ایک طرف گھر کی پریشانی، بے روزگاری اور کورونا کا خوف۔ نہ جائے رفتن نی جائے مانندن۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بہ نسبت شہر والوں کے دیہاتیوں نے کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈائون پر سختی سے عمل در آمد کیا ہے لیکن اس بحران کے دوران غریب شہریوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ مزدور جسمانی اور جذباتی طور پر بے گھر ہوگئے ہیں اور وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذاررہے ہیں یہاں تک کہ بھوک کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
عام آدمی کسی طور بھی لاک ڈاون کے خلاف نہیں ہے اورہر کسی کو لاک ڈاون کے ناگزیر ہونے کا احساس ہے اور ہر کوئی یہ قبول بھی کررہا ہے۔ خصوصی طیاروں کا انتظام کیا جا رہا ہے لیکن ملک میں موجود غریبوں کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا بھول گئے ہیں اور وزیر ریلوے کی منت سماجت کے باوجود ٹرین سروس کو بحال نہ کیا جاسکاایک طرف پہلے ہی سے لوگ غربت و استحصال کا شکار ہیں اس پر انہیں لاک ڈائون نافذ کرتے ہوئے ان کے گھروں سے دور پھنسا دیا گیا ہے۔غریب اور مزدوروں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کوئی گداگر ہوں اور ہم انہیں خیرات دے رہے ہیں۔ حالانکہ ان مزدوروں نے ہی ہماری فیکٹریاں تعمیر کی ہیں۔ ہماری معیشت اور ہمارے ملک کی تعمیر و ترقی کے عمل میں ان کا ہاتھ ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو گھروں سے باہر ہیں۔ وہ فاقوں سے دوچار ہیں اگر ہم ان کا خیال نہیں رکھ سکتے تو پھر انہیں گھر جانے دیں ۔ ان کے ساتھ بھلا ہوگا۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *