ایف ایس سی کا طالب علم ، دیر تک پڑھائی کرکےاپنی مستقبل سنوارنا چاہتا تھا ، اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا سہارا بن کر ان کے ادھورے خواب پورے کرنا چاہتا تھا ۔وہ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے میکینیکل انجنیئرنگ کرنا چاہتا تھا ۔ڈگری رجسٹریشن کیلئے پہلے سے ہی اکاونٹ میں پیسے جمع کرلئے تھے ۔ عید کے کپڑے پہن کر جمعہ کی نماز پڑھنا چاہتا تھا ۔مگر سفاک قاتل نے سفاکیت کی وہ انتہا کردی کہ شاید یزیدیت بھی شرما جائے ۔گھر میں گھس کر طالب علم یاسر حمید پر فائر کرتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اور قاتل پھوپھو کا شوہر معلوم ہونے کے باوجود بھی نامعلوم ہے ۔اور ابھی تک پولیس انہیں گرفتار نہ کرسکے ۔ میں چونکہ تین سالوں سے اسلام آباد میں رہائش پذیرہوں اسی لئے یاسر حمید کو زاتی طور پرجانتا تو نہیں تھا مگر جب ان کا معصوم چہرہ ان کے بھائی کی رو رو کر دہائی سنتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔یاسر حمید کے دوستوں سے جب میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سفاک قاتل اپنی بیوی کو روزانہ کی بنیاد پر اس کے چہرے اور جسم پر مکے مارکر بد ترین تشدد کرتا تھا اور اس کے خلاف گھناؤنی زبان استعمال کرتا تھا ۔ ان کی ان حرکات سے تنگ آکر وہ رمضان کے مہینے میں وہ اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر اپنے بھائی (مقتول یاسر کے والد) کے گھر پناہ لے لی۔ ماہ کے اختتام پر اس کا بڑا بیٹا جو حافظ قرآن ہے اور بٹگرام میں رہائش پذیر ہے آیا اور اپنی والدہ کو مرحوم کے گھر سے اپنے ساتھ بٹگرام لے گیا۔ اگلی صبح قاتل متوفی یاسر کے گھر آیا تو اس نے اپنی اہلیہ کے بارے میں دریافت کیا۔ جب اسے بتایا گیا کہ وہ اپنے بیٹےکیساتھ بٹگرام چلی گئی ہے تو اس نے مشتعل ہوکر نہ صرف گالیاں دی بلکہ تشدد کرنا بھی شروع کردیا۔ گھناؤنے الفاظ سن کر معصوم یاسر اس کے قریب گیا اور انہیں گالیاں دینے سے منع کرنا چاہا مگر سفاک قاتل نے ایک نہ سنی اور پستول نکال کر یاسر پر گولی چلا دی۔ جس سے یاسر موقع پر ہی خالق حقیقی سے جا ملا، یہی نہیں بلکہ قاتل نے ان کے بڑے بھائی کو بھی مارنا چاہا ان پر بھی گولی چلائی مگر وہ بال بال بچ گیا ۔ قاتل کے بارے میں جب معلومات دریافت کرنا شروع کی تو پتہ چلا کہ وہ گورنمنٹ ہائی اسکول بیاری میں چوکیدار ہےاور جائے وقوعہ سے فرار ہونے کے بعد آلائی کے کسی بااثر شخصیت کے ہاں پناہ لے رکھی ہے مگر یہ یاد رکھیئے کہ مجرم کا ساتھی مجرم اور قاتل کا ساتھی قاتل ہی ہوتا ہے، قاتل کو پناہ دینے والا جرم میں برابر کا مرتکب ہے ۔پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی ہے اور تحقیقات شروع کردی ہے ، ڈی پی او بٹگرام طارق سہیل مروت نے ببانگ دہل یہ تو کہہ دیا کہ میں خود جائے وقوعہ پر جاکر اس کیس کی تحقیقات کرونگا ۔۔اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور مرحوم یاسر کی روح کو انصاف ملے۔ قارئین ! یوں تو مادر وطن کی ہر صبح کے سورج کا اپنے ساتھ ہولناکیوں اور دل ہلا دینے والے حادثات و واقعات کے ساتھ طلوع ہونا معمول ہی بن چکا ہے۔ نفسا نفسی اور مشکلات و مسائل سے گھری زندگی کی پریشانیوں سے نبرد آزما عوام اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہولناک واقعات و حادثات کی خبروں کو معمول کی خبریں سمجھ کر ہی دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ضلع بٹگرام نسبتاً پرامن سمجھا جاتا تھا کہ جو اپنی روایات ، وضع داری اور مخصوص تمدن و ثقافت کی بنیاد پر منفرد پہچان رکھنا اور جرائم کی شرح نہ ہونے کی برابر تھی مگر حال ہی میں یہاں مختلف علاقوں میں معصوم بچوں کی قتل نے تمام ذمہ داران معاشرہ کے لیے کئی سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ۔اس واقعہ کو رونما ہوئے کئی دن گزر چکے میں دیکھتارہاکہ شاید کسی جانب سے اپنی مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہونے کا احساس کرتے ہوئے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی جائے،یا جن کے ہاں قاتل نے پناہ لی ہے وہ خود قاتل کو پولیس کے حوالے کرے مگر ایسا نہ ہوا اور آخر کار اس پر قلم کو جنبش دینی پڑی۔اب ہماری زمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس ظلم کیخلاف مقتول کے خاندان کیساتھ کھڑے ہوں ، یاسر کو انصاف دلانا ہے، قاتل جو بھی ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں مگر اس بدترین ظلم کی اسے سزا ملنی چاہئے۔ چونکہ ہمارے منتخب نمائندے گونگے بہرے ہیں اس لئے ان سے انصاف دلوانے کی امید رکھنا یقیناً وقت کا ضیاع ہے۔اس کیلئے طلباء تنظیموں نے نکلنا ہوگا ، احتجاجی مظاہرے کرنے ہونگے ، سڑکیں بلاک کرنا ہوگی ،کیونکہ یہاں احتجاجی مظاہروں کے بغیر انصاف ملے یہ سوچنا بھی بے وقوفی ہے۔۔ زندہ مثالیں بٹہ موڑی کا واقعہ ، شنگلی بالا واقعہ، ترند ، شبورہ سمیت دیگر واقعات آپکے سامنے ہیں۔ جب تک قاتلوں اور ان کو پناہ دینے والوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی نہ کی جائے، جب تک قاتلوں کی محفوظ پناگاہوں کے خلاف آپریشن نہیں ہوگا تب تک یہ گھناؤنا کھیل جاری رہے گا،اور معصوم بچے یونہی موت کے گھاٹ اتاردئے جائینگے۔۔یاسر کو انصاف فراہم کرنے کیلئے ہمیں ٹویٹر کا سہارابھی لینا پڑسکتا ہے ۔ جب ہم ٹویٹر پر ٹویٹس کرکے ٹاپ ٹرینڈ بنائے گے تو حکام بالا تک ہماری آواز باآسانی پہنچ جائیگی۔ جہاں تک ہوسکے مظلوم خاندان کا ساتھ دیجیئے چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق کسی ظلم پر خاموشی ظالم کا ساتھ اور ہاتھ مضبوط کردینے کے مترادف ھے……! یاد رکھیئے آج اگر یاسر کے بہیمانہ قتل پر ہم نے خاموشی اختیار کی تو وہ دن دور نہیں جب ہم بھی اسی طرح کسی قاتل کے ہاتھوں مظلوم موت مارے جائیں گے اور ہمارے حق میں بھی کوئی بولنے والا نہیں ہوگا ۔۔قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *