ہر طرف کورونا کا رونا جاری ہے مگر اس دوران معاشرے میں جو دیگر فساد کا بازار گرم ہے اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے اور ملاوٹ عام ہے۔ سرمایہ دار کا طریقہ واردات یہ کہ کہ وہ مارکیٹ سے ضرورت کی چیز کو غائب کر دیتا ہے اور جب طلب بڑ جاتی ہے تو غائب اشیاء کو نکال باہر کیا جاتا ہے یہ کام منظم اانداز میں کیا جاتا ہے نیچے سے اوپر تک سب ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ سب مل کر کھاتے ہیں۔ کبھی آٹے کی قلت، چینی کی قلت، سیمنٹ کی قلت، پٹرول کی قلت ، ماسک کا مارکیٹ سے غائب ہوجانا اور اب ڈوکسا میتھازون جیسے سستی دوا کا زخیرہ ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ بقول میر
کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں
اس نسخے کی کوئی نہ رہی حیف دوا یاد
مہنگائی اپنی جگہ مگراشیائے صرف میں ملاوٹ سنگین معاملہ ہے اور یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا دودھ میں یوریا، مردوں کو محفوظ رکھنے والا کیمیکل اور بال صفا پوڈر نہیں ملایا جاتا؟ کیا ایک اسلامی معاشرے میں اس کی اجازت ہے؟ بھلا جب انسان کا نوالہ ہی زہر بن جائے اور پانی کا گلاس موت کا سامان بن جائے تو کیا یہ دھشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ دیکھا جائے تو ہر چیز میں ملاوٹ جس سے بچنا آسان نہیں ہے۔ لوگ چھوٹی بڑی بیماریوں کا شکار ملاوٹ کے سبب ہی ہوتے ہیں ملاوٹ عام طور پر نظر نہیں آتی اور اثرات عموما غیر محسوس ہوتے ہیں آپ نہیں جان سکتے کہ کیا فلاں بیماری ملاوٹ کا نتیجہ ہے ؟ یہ ایک لا علاج مرض ہے قانون بھی بے بس نظر آتا ہے سرکاری شعبوں سے کسی اصلاح کی امید فضول سی بات ہے۔
محکمہ صحت کے ایک سینٹری انڈ فوڈ انسپکٹر سے بات ہورہی تھی ان کا کہنا تھا پاکستان میں ملاوٹ کا مسئلہ زیادہ سنگین نہیں کیوں کہ لوگوں کے معدے ملاوٹ شدہ کھانے کھا کر عادی ہوگئے ہیں، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اگر چہ انسپکٹر موصوف نے صارفین کہ تسلی تو دے دی ہے مگر ان کے ایسا کھنے سے صارفین کی تشفی بھی ہو جائیگی اس کا جواب متعلقہ ادارے کے ذمہ داران ہی دے سکتے ہیں۔دودھ اور دھی میں کیمیکل ملایا جاتا ہے جس سے دودھ گاڑھا نظر آتا ہے اور دھی تو بظاہر خوشنما نظر آتاہے اور اس کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے کیمیکل سے جہاں جسمانی نقصان پہنچاتا ہے وہیں دودھ میں موجود مفید عناصر کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ ہمارے ایک ڈاکٹر دوست کا کہنا ہے کہ ایک خاص قسم کا کیمیکل چھ سو روپئے میں کلو ملتا ہے جس سے بارہ کلو دھی تیار کیا جاتا ہے۔اسی طرح پھلوں میں بھی کیمیکل ڈالا جارہا ہے، اس سے پھل کا ذائقہ زیادہ میٹھا ہوجاتا ہے، لیکن اس کیمیکل کے استعمال سے یہ پھل صحت کیلئے نقصان دہ بن جاتا ہے۔یہ کیمیکل عام طور پر بوقت حمل ڈلیوری میں حاملہ خواتین کو استعمال کرایاجاتا ہے اب ماہرین صحت ہی بتا سکتے ہیں کہ عام آدمی پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟
اب توہری سبزیوں میں ملاوٹ شروع ہوگئی ہے بظاہر سبزیاں تازہ اور ہری نظر آتی ہیںجو آنکھوں کو بھلی لگتی ہیں مگر یہ بھی کیمیکل کا کمال ہوتا ہے۔ پہلے تو صنعت کار اور تاجر تو ایسا کرتے تھے کاشتکاروں نے بھی ملاوٹ کا دھندہ شروع کردیا ہے وہ بھی ملاوٹ کے دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ کچی سبزیوں میں ہار مونز کے انجیکشن بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس سے سبزیاں بالکل تاز ہ نظر آتی ہیں۔ ھرامٹر ،ہری سبزی ، ہری مرچ ، ہرا دھنیا در اصل ملاوٹ کا شاخسانہ ہیں مگر عوام بے چارے ساون کے آندھے کے مصداق ہیں جو جن سب کچھ ہرا ہی نظر آتا ہے۔اسی طرح اب دالوں میں ملاوٹ : لوگ دالوں کے استعمال کو محفوظ جانتے ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے دالوں میں جو چمک نظر آتی ہے وہ یونہی نہیں ہے بلکہ اس میں بھی کیمیکل کی چمک ہے۔ ملک میں اکثر بیماریاں ملاوٹ شدہ اشیاء سے پھیلتی ہیںاور ذیادہ تراموات گندے پانی اور ملاوٹ شدہ غذائی عناصر سے ہوتی ہیں۔ ماہرین یہی کہتے ہیںکہ مرض کی اصل جڑ مضر صحت ملاوٹی اشیا سے پیوست ہے۔ اس وجہ سے معدے اور انتڑیوں کی تکلیفیں عام ہونے کے علاوہ کچھ ایسی موذی بیماریاں بھی بعض بدقسمت صارفین کے حصے میں آتی ہیں مگر بھولے بھالے صارفین کو یہ حقیقت معلوم ہی نہیں کہ ان کے امراض کا اصل سبب حرام خوری کرنے والے دکاندار اورصنعت کار ہیں جو راتوں رات امیرومالدار بننے کے لئے مضر صحت چیزوں کا کھلے عام کاروبار کرتے ہیں۔ مگر محکمہ ہیلتھ کے ایک سینٹری اینڈ فوڈانسپکٹر میں نہ مانوں کے رٹ لگا رہے ہیںان کا یہی کہنا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا عوام کے معدے عادی ہوگئے ہیں ان کو کچھ بھی نہیں ہوتا ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاوٹ شدہ کھانے اگر عوام کی قسمت میں لکھے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام۔
اگر چہ ملاوٹ کے خلاف قانون تو موجود ہے مگر طبیعت میں جب خباثت ہوتو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ ویسے قانون بھی اندھا ہوتا ہے صارف کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ چیز دو نمبر ہے ۔یہ بات طے ہے کہ اپنے اندر بے ایمانی کو ختم کیے بغیر، بدعنوانی کا ازالہ ناممکن ہے، کسی بھی برائی کو روکنے کے لئے ضروری چیز قوت ارادی ہے جس کا فقدان ہے۔ اس بابت سماج کی فکر اور سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ وقت مثبت فیصلہ لینے کا متقاضی ہے۔ پورے سماج کو اس کے لئے کوشاں ہونا چائیے اور متعلقہ اداروں کو فعال کردار ادا کرنا چائیے معمولی جرمانوں کی بجائے ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلانے کیلئے قانون سازی کرنی چائیے۔ لیکن ایسا کون کرے اور کیوں کریں یہاں تو سب ملے ہوئے ہوتے ہیں۔
میرکیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *