سال 2020؁ء دنیا پر بھاری ثابت ہوا ہے اور ابھی یہ سال گزر رہا ہے۔ اس سال کے گزرے چند مہینوں نے خوف، ناکامیوں و مایوسیوں اور شکستگی کو جنم دیا۔بھر حال وقت کی رفتار جاری ہے اور یہی زندگی ہے۔ اور یہ بھی تاریخ کا سبق ہے کہ وقت کسی کیلئے رکا ہے نہ رکتا ہے نہ رْکے گا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا البتہ سب وقت کے سب منتظر ہوتے ہیں ۔
موجودہ مشکل ترین حالات میں بھی انسان انسان کا دشمن بنا ہوا ہے ، انسانی جذبات و احساسات ایسا لگ رہا ہے کہ رخصت ہورہے ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ اس خوف کے ماحول نے بھی انسان کو بے خوف کردیا ہے۔ مہنگائی کا طوفان ہے اور زخیرہ اندوزی عروج پر ہے۔ اس دوران چینی کا بحران، آٹے کا بحران اور پٹرول کا بحران اس کی واضح مثالیں ہیں۔ طاقتور کمزور کا استحصال کررہا ہے۔ بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو ہضم کرتی جارہی ہیں۔ دولت کی مساویانہ تقسیم کا نظریہ گویا سمندر بود کر دیا گیا ہے مادیت کو فروغ ہے ۔ ہر چیز کمرشل ہوگئی ۔ جس کے پاس پیسہ ہے اس کے پاس طاقت ہے ۔حکومت کی کار کردگی سب کے سامنے ہے سرمایہ دارو جاگیر دار، ملوں اور کارخانوں اور کمپنیوں کے مالک اور صنعت کار حکومتی امور پر اثر انداز ہورہے ہیں اور پنی مرضی و منشاء کے مطابق معاملات کو چلا رہے ہیں اور حکومت مجبور بھی ہے اور بے بس بھی اور لاچار بھی۔ بھر حال و عوام کو ان کے اشاروں پر ناچنا پڑتا ہے۔
چونکہ پوری دنیا میں عالمی سرمایہ داری نظام نافذ ہے اور اس نظام کا خاصہ یہ ہے کہ اپنا ایک پیسہ بچانے کیلئے اگر دوسرے کا ایک کروڑ ڈوبو دیا جائے تو یہ کامیابی کی دلیل ہے۔ عالمی سطح پربڑی بڑی کمپنیوں کی ہی ساری دنیا پر اجارہ داری رقائم ہے۔ ایجادات، اختراعات اور صلاحیتوں کو یہ بڑی بڑی کمپنیز اور ادارے منہ مانگی قیمت ادا کرکے خریدرہی ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ ان کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور زندگی کے ہر شعبہ اور خاص کر تجارتی سرگرمیوں پر ملٹی نیشنل کمپنیاں قابض ہیں اور ان کا تسلط جاری ہے اور حکومتیں ان کمپنیوں کے زیر اثر ہیں۔ دنیا میں وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتی ہیں۔ یہاں تک کہ انتخابی مہم کے دوران بھی کمپنیاں اپنے خاص بندوں کو اقتدار پر فائز کرنے کیلئے اپنا کر دار ادا کرتی ہیں اور حکومتوں کے بنانے بگاڑنے کیلئے یہ کمپنیاں اور چھوٹے ممالک میں سرمایہ دار اور جاگیر دار عجیب و غریب کھیل کھیلتے ہیںاور ان کا کردار بہت دلچسپ ہوتا ہے۔
کسی نے کیا سچ کہا ہے کہ ،طوائف اور کرسی کبھی ایک کی ہو کر نہیں رہتی ،یہ کب دھوکہ دے جائیں، کوئی نہیں جانتا ۔ کسی شاعر نے خوب ترجمانی کی ہے۔
چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھر تے ہیں
در بدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسہ دے کر
ہاتھ میں کاسئہ خیرات لئے پھرتے ہیں
فرقہ واریت کے فروغ میں بھی سرمایہ دار، جاگیر دار اور کمپنیوں کا کردار ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر تکفیری فتوے بھی لگتے ہیں اور کبھی مفادات کیلئے ایک بھی ہوجاتے ہیں۔اور اختلاف کی تاویل کر کے اسے رحمت سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ آخر ایک کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے پر کفر اور تکفیر کے فتوے کیوں لگاتے ہیں؟ اس سوال کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ پیسہ بولتا ہے۔ جتنا پیسہ اتنا شور۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اہل جبہ و دستار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور وقت گزاری کیلئے فتویٰ سازی کی فیکٹریاں وجود میں آتی رہتی ہیں۔
چھوٹے چھو ٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں….ہاتھ میںکاسئہ خیر ات لئے پھرتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
فرعون نے انسانیت کو تقسیم کیا ہوا تھا اور فرقے قائم کئے ہوئے تھے ۔فرعون ایک سیاسی کر دار تھا قارون سرمایہ دار کا نمائندہ تھا اور ہامان ایک فرسودہ مذہبی کردار تھا اور یہ تینوں مل کر فرقے اور تفرقے بنا کر انسان کو انسان کا دشمن بنانے کا دھندہ کرتے تھے۔ اسی وجہ سے دنیا کی تاریخ انسانی میں فرعونی نظام سب سے بدترین نظام حکمرانی کہلاتا ہے، فرعونی نظام میںچند افراد پوری دنیائے انسانیت کو غلام بنائے ہوئے تھے ، اس دور کے انسانوں اور جانورں میں کوئی فرق نہیں تھا، اربا ب اقتدار اور عوام کے درمیان کوئی تعلق نہیں تھا ، حکمراں طبقہ کا اپنے بارے میں تصور تھاکہ دنیا کی تمام نعمتیں صرف اسی کی آسائش کیلئے ہے ، کائنات اللہ تعالی نے صر ف اسی کیلئے بنائی ہے ، آسمان سے لیکر زمین تک کی تمام چیزیں صرف انہیں کے قبضہ قدرت میں ہے دوسری طرف اپنے ماسوا کے بارے میں ان کا نظریہ تھاکہ یہ سب ان کی غلامی اور خدمت کرنے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں، عزت اور شرافت کی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ، انہیں ان کے قریب بیٹھنے ، دولت حاصل کرنے ، کمانے اور حصول اقتدار کی کوشش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
فرعونی نظام کے تناظر میں دیکھا جائے تویہ نظام شرمناک بھی ہے اور انسانیت سوزبھی ، یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں غریبوں کیلئے کوئی مقام نہیں ہوتا ہے، اس نظام میں حکومت اور اقتدار میں عوام کی شراکت نہیں ہوتی البتہ پروپگنڈہ بہت ہوتا ہے ، دولت پر چند افراد کا قبضہ ہوتا ہے، مورثی سیاست کی وجہ سے شرافت اور عزت کا کاپی رائٹ مخصوص افراد کو دیا جاتا ہے ، چند مخصوص افراد کے سوا کسی اور انسان کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ شرافت اور عزت دار کہلا سکے یا اس طرح کی کسی بھی خصوصیت سے وہ قریب ہوسکے، اسی بنا پر چند افراد کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔حالانکہ انسانیت ، شرافت ، دولت ، اقتدار اور حکومت کسی کی جاگیر نہیں ہے ،یہ چیزیں صرف چند انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے ، پوری انسانیت لائق احترام ہے ،تمام بنی آدم کو عزت واحترام سے جینے کا حق ہے۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *