پاکستان کے شو ملز مالکان کاگر کارٹل بنا ہوا ہے جسے ہمارے وزیر اعظم مافیا کے لقب سے بھی پکارتے ہیں۔ پاکستان کے شوگر ملز مالکان طاقت ور ترین ہیں اور اس کی وجہ ان کا مثالی اتحاد ہے۔شوگرملوں کے مالکان ذیادہ تر سیاست دان ہیں اور وہ اپنے کاروبار کے تحفظ اور ترقی کیلئے میدان سیاست میں سرگرم ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں وہ عوام سے رجوع کرتے ہیں، ووٹ حاصل کرتے ہیں اور اقتدار حاصل کر کے مرضی کا قانون بناتے ہیںاور اپنا ذاتی فائدہ حاسل کرنے کیلئے سبسڈی منظور کرتے ہیں۔ اور پاکستانی عوام اور کاشتکاروں کا استحصال کرتے ہیں۔
چینی کے کاروبار سے وابستہ سیاست دانوں کا تعلق مختلف سیاسی پارٹیوں سے ہے اور سیاسی میدان میں یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیںمگر سب نے ملکر اپنے مشترکہ طور پر مفادات کے تحفظ کیلئے شوگر ملز ایسوسی ایشن بنائی ہوئی ہیں اور مل جل کر ہیرا پھیری کرتے ہیں کاشتکاروں پر ظلم کرتے ہیں اور عوام کے استحصال کرتے ہیں نوے ملز کے مالکان نے بائیس کروڑ عوام کو نشانے پہ رکھا ہے یہاں تک کہ ملک کا وزیر اعظم بھی ان کے سامنے بے بس ہے اور ملک کے کاشتکاروں کے سامنے اسے بر ملا طور پر کہنا پڑا ہے کہ شوگرمافیانے منافع چھپاکر ٹیکس چرایا ‘ مال مہنگا بیچا اورکسانوں کو ادائیگی بھی نہیں کی۔ اور جب ابتدا میں ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کی تو شوگر مافیا نے دھمکی دی اگر تم تفتیش کرو گے تو ہم چینی غائب کردیں گے اور قیمت مزید اوپر چلی جائے گی ، یہ سب طاقتور ایک ہی قطار میں بیٹھے ہیں جوتمام جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس سے قبل وفاقی کابینہ نے ملک میں چینی بحران سے متعلق فورینزک رپورٹ عام کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے نو بڑے گروپوں کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر ، شریف ، ترین، چوہدری خاندانوںاور پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے‘۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسان کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور انھیں لوٹا ہے‘۔ انتہائی کم داموں میں کاشتکار کو قیمت ادا کی ہے۔ گنے کی قیمت میں اس وقت اضافہ کیا گیا جب حکومت نے کمشن بنانے کا اعلان کیا۔‘
دریںاثناپاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے والی چینی فورینزک رپورٹ پر اپنے رد عمل میں کہاکہ کارروائی تو وزیراعظم کے خلاف ہونی چاہیے جنھوں نے چینی بر آمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ رپورٹ اصل میں ’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہے۔‘اورپی ٹی آئی سے سیاسی طور پر وابستہ کاروباری شخصیت جہانگیر ترین نے چینی فرانزک رپورٹ میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو ناانصافی کہااور کہا کہ چینی کی برآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ وہ بنیاد ہے کہ جس سے باقی تمام چیزیں خراب ہوئیں۔ البتہ مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے کہا ہے کہ ’میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کسی شوگر مل کے بورڈ یا مینیجمنٹ میں شامل نہیں ہوں۔ کمیشن کی قانون سازی کے لیے سفارشات کی حمایت کرتا ہوں‘۔
کسی زمانہ میں پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا بول بالا تھا اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام تھا اور اس صنعت سے عا، اادمی کا روزگار وابستہ تھا اور مذدوری عام تھی اور کاشتکار خوشحال تھا۔جب سے شوگر کی صنعت کو فروغ ملا ہے ٹیکسٹائل کی صنعت تباہ ہوئی ہے۔ پہلے پاکستان میں سالانہ 15ملین گانٹھ کپاس پیدا ہوتی تھی جو اب کم ہوتے ہوتے 10ملین رہ گئی ہے یہ ہماری انڈسٹری کا خام مال تھا جس سے کپڑا بنتا تھا جو زرمبادلہ کا سب بڑا ذریعہ تھا شوگر ملوں کی وجہ سے گنے کی کاشت بڑھتی گئی اور پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری خام مال نہ ہونے کی وجہ سے کمزور ہوئی اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھی اور کاشتکار کا بڑے پیمانے پراستحصال شروع ہوا ۔ ویسے کسان بے چارے کے چھوٹے چھوٹے استحصالات ہمارے ہاں عام ہیں جیسا کہ تمباکو کے کاشتکاروں کا استحصال تمباکوں کی کمپنیاں کرتی ہیں ان کے اپنے اپنے حربے ہیں اور آلوں ، پیاز اور ٹماٹر وغیرہ کا استحصال آڑھتی کرتے ہیںمگر شوگر مافیا نے تو حد کر دکے کاشتکار کی کمر توڑ دی ہے۔
اس وقت ملک کا عام آدمی غصے میں ہے، عوام یہ سوال ٹھاتے ہیں کہ اگر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے شوگر ملز مالکان یونین بنا سکتے ہیں تو پاکستان کے کسانوں اور کاشتکار کیوں اکھٹے نہیں ہوسکتے کہ ان کا استحصال نہ ہو۔ اور اسی طرح سیاست سے بالاتر ہو کر پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کیوں اپنے مفادات کیلئے اکھٹے نہیں ہوسکتے؟۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری جدوجہد حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف تھی‘کسی لابی کا حصہ ہوں نہ میرے کاروباری مفادات ہیں۔حکمرانوں کی کرپشن ملکی تباہی کا سبب ہے، بدقسمتی سے ہر جگہ مافیاز بیٹھے ہیںمگر میں کسی مافیاکو پنپنے نہیں دوں گا، کسانوں کا معیار زندگی بلند کرنا اولین ترجیح ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور حکومت ان سب ملوں کے معاملات پر نظر رکھے ۔بڑے بڑے ملوں کی بجائے چھوٹے پیمانے پر صنعت کو فروٖغ دیا جائے سمال انڈسٹریاں قائم کی جائیں تاکہ کاشتکارکھیتوں کے قریب گنے کی کرشنگ چھوٹے پیمانے پر خود کر سکیں ۔ اور گڑ کی صنعت کو فروغ دیا جائے ۔ چینی جو کیمیکلز کا ملغوبہ ہے اور شوگر کی بیماری کی جڑ ہے اس کی استعمال میں کمی آ سکے جیسا کہ پرانے زمانہ میں پرانے زمانے گنے سے رس نکالاجاتا تھا اور گڑ بنایا جاتا تھااس سے شوگر مل کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی اور ملک کا کاشتکار خوشھال ہوگا اور جس ملک کا کاشتکار خوشحال ہوتا ہے تو تب ہی ملک ترقی کرتا ہے۔ حکومت کو بائیس کروڑ عوام کے مفادات کا خیال کرنا چائیے نہ کہ چند خاندانوں کا۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *