خطے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے آثار ہیں ۔ امریکہ پاکستان سے افغانستان پر حملے کیلئے اڈے مانگ رہا ہے جبکہ پاکستان واضح طور پر انکار کر دیا ہے اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دو ٹوک اعلان کر دیا ہے کہ امریکہ کو فوجی استعمال کیلئے اڈے نہیں دیں گے۔ یہ پاکستان کی تہتر برس کی تاریخ میں بڑی بات ہے کہ پاکستان نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے اور ریاست پاکستان نے خطے کے ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کیلئے راستے کا تعین کر لیا ہے اگر چہ یہ راستہ کھٹن ہے مگر پاکستان کا مستقبل روشن ہے اور ملک و قوم کے مستقبل کیلئے یہ ایک زبردست فیصلہ ہے۔
افغانستان کی جنگ نے پاکستان کو دھشت گردی کا تحفہ دیا اور قوم ہیروئین جیسے چیز سے بھی متعارف ہوئی ۔کمال حکمت سے یہ جنگ لڑی گئی ایک طرف وہ امریکہ سے اسلحہ اور ڈالر اور جہادی گروپس کی تشکیل جو سویت یونین کو نشانہ بناتے رہے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سویت یونین کا نقشہ معدوم ہوا اور عالم اسلام میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ سوشلزم کا بت پاش پاش ہوگیا ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب ہمارا دور ہے اور مستقبل ہمارا ہے۔ ہے ۔ امریکہ کی چھتری کے نیچے جہاد کا جھنڈا بلند کر کے عالم اسلام کو اس مقام تک پہنچایا گیا کہ اسے اسلام کے نشاۃ ثانیہ سے تعبیر کیا گیامگر جو حقیقت ہے وہ آپ کے سامنے ہے یہاں تک کہ بعد میں افغان جنگ میں خود کو ملوث کرنے کو کوئیلوں کی دلالی سے تعبیر کیا گیا۔
اس میں کوئی ابہام نہیں کہ سامراجی نظام نے قوم کے عقلوں کو تالے لگا دئیے ہیں اور ان کے ذہنوں کو مسخ کردیا ہے اور شعو ر پر پہیرے لگادئے ہیںمیٹھی باتیں محض پڑھنے اور سننے کی حد تک محدود ہیں اور عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر سطح پر شکست سے دوچار ہیں جس میں مارکیٹ اور سیاست کے میدان بھی شامل ہیں دولت کے پجاری اپنے سیاسی اور معاشی انسانیت کے قتل کو جائز ثابت کرتے ہیں چند سو افراد نے قوم کو یرغمال بنایا ہوا ہے جس کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہوتا ہے اس کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر قوم برداشت کرتی ہے اور دوہری شہریت رکھنے والے بینکار کو بھی قوم پر بحیثیت وزیر اعظم مسلط کر دیا جاتا ہے اور قوم صرف نعرے لگا کر خوش ہوتی ہے اور صرف اخباری بیانات کو زینت بنا کر دل بھلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بس ایک اخباری بیان دیکر ہم نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔
المیہ ہمارا یہ ہے کہ ہم خود نکمے ہوتے ہیں اور جو کام کے لوگ ہوتے ہیں ان کو چھوڑتے نہیں ہیں پاکستانی تاریخ میں ایک کردار بھٹو کا بھی تھا اس کو قومی مجرم گردانا گیا جرم اس کا یہ تھا کہ اس نے غریب اور نیچلے طبقے کو سیاست کے رموز سیکھائے اگر چہ وہ خود جاگیردار تھا مگر سرمایہ پرستی سے دور تھا وہ یہ سوال اٹھاتا تھا کہ ہنر مند اور اہل حرفہ روزگار سے محروم کیوں ہیں؟ اور کسان جولاہے فاقوں سے نڈہال کیوں ہیں؟ مذدور کو اس کی مزدوری کا صلہ کیوں نہیں ملتا ہے؟اور یہ ہاریوں کے ساتھ ناروا سلوک کیوں کیا جاتا؟ ہے؟اور یہ ملوں کے مالکان مزدوروں کا حق کیوں دباتے ہیں؟بھلا ان کو ان باغیانہ سوالات کا جواب کون دیتا؟یہ سوالات تو شک اور شبہ میں مبتلا کرنے والے تھے ایسا آدمی ہوتا بڑا خطرناک ہے سرمایہ دار کی یہی ذہنیت ہوتی ہے کہ راستے کے ہر رکاوٹ کو ہٹا دیا جائے اور جو پتھرراستے میں حائل ہو اس کو توڑا جائے چنانچہ بھٹو کو راستے سے ہٹاکر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی لاج رکھی گئی اور اہل جبہ اور دستار کے دل اور کلیجہ وغیرہ کو ٹھنڈا کیا اور آنے والوں کو بتا دیا کہ جو غریب مذدور اور کاشت کار کے حقوق کی بات کریگا اس کا حشر یہ ہوگا۔
سرمایہ دارانہ نظام ہی موجودہ مسائل کا حل ہے اور جو اس نظام کو ترچھے نظر سے دیکھتا ہے وہ کیمونسٹ ہے بعض اہل جبہ کا یہ فتویٰ ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا فلسفہ ہے کہ اپنا ایک روپیہ بچانے کیلئے دوسرے کا ایک کروڑ ڈبونے دو یہ کامیابی کی دلیل ہے انسانی ضروریات پوری ہوتی ہو یا نہیں غریب کے گھر کا چولہا جلتا ہو یا نہیں ماں کی ممتا بچے کو دودھ دے یا کہانیاں سنا کرجھوٹے دلاسے دے کڑیل جوانیاں اگر پنجرے بنے تو کیا بس سرمایہ دار کو اپنے سرمایہ کی فکر کرنی چائیے سب کو اپنی خیر منانا چائیے دوسروں کی خیر ہے اول خویش بعد درویش جان ہے تو جہاں ہے جو اس فارمولے پر عمل کرتا ہے گویا کامیابی کی کنجی اسکے ہاتھ میں ہے۔
اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آج خون کے بادل برستے ہیں اور پاکستان اس کے لپیٹ میں ہے لوگ بھوکے بھی ہیں اور خوف بھی ان پر مسلط ہے انسانی حقوق کی بات تو ہوتی ہے مگر آج کا انسان مہذب بھیڑیے کی رحم وکرم پر ہے یہ بھیڑیا اقوام کو لڑاتا ہے اور اسلحہ کا بیوپار کرتا ہے منڈیوں پر قبضہ کرتا ہے پانی کو خون آلودہ کرتا ہے ہزاروں من بارود گرا لر کھیتوں کو بنجر کرتا ہے اور جس طرح افغان جنگ میں مسلمانوں کو سویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا آج ان ہی عناصر بمبار بناکر کو پاک فوج اور پاکستانی قوم کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے جسے مقدس عنوان دیا گیا ہے جس طرح افغان جنگ میں یہ نام استعمال کیا گیا تھا مگر کچھ فتوے ساز آج بھی فساد کو مقدس عنوان دیتے ہیں کیا یہ فساد نہیں ہے کہ ایک مسلمان آج مسجد میں نماز پڑھنے میں بھی خوف محسوس کرتا ہے اور بندوق کے سایہ میں نماز پڑھنے پر مجبور ہے ۔آپ بتائیں یہ سرمایہ کی جنگ ہے یا مقدس عنوان اب جبکہ عالمی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے اور پاکستانی وزیر اعظم نے دو ٹوک طور پر کہ دیا ہے کہ ہم مذید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ہر گز امریکہ کو اڈے فراہم نہیں کریں گے یہ بڑی بات ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان نے تاریخ سے سبق حاسل کر لیا ہے اور اپنے لیئے روشن مستقبل کا تعین کر لیا ہے!!!۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *