افغانستان میں اشرف غنی کے فرار کے بعد طالبان فاتحانہ کابل میں داخلہ ۔پنٹا گان میں جنرل کینیتھ نے افغانستان سے امریکی شہریوں کے انخلا کی تکمیل کے ساتھ بیس سالہ امریکی جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا۔واشنگٹن میں اس اعلان کے بعد کابل میں طالبان سڑکو ں پر نکل آئے اورہوائی فائرنگ کرکے’’ مکمل آزادی‘‘ کا جشن منایا۔ جب کہ بھارت میں ماتمی فضاء ہے۔افغانستان میں امریکی شکست اس کے نظام کے زوال کی علامت ہے۔امریکی نظام شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ افغانستان میں چالیس سال قبل استعماری طاقتوں نے جس کھیل کی شروعات کی تھیں اس کا اختتام ہو چکا ہے۔ امریکہ نے دورانِ جنگ خطے میں آلہ کار طبقہ پیدا کرنے کے لیے کھربوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پچاسی ارب ڈالر کا اسلحہ ناکارہ شکل میں طالبان کے ہاتھ لگا ہے۔ امریکہ کو خطے سے لوٹتے وقت ساتھ چلنے والی قوتوں کو زیرنگیں رکھنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کا استعمال شروع کردیا ہے۔ دراصل استعمار کے پاس تعمیر کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
اپنے غلبے کے دور امریکہ نے دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں افغانستان، لیبیا ،عراق اور شام کے حالات دنیا کے سامنے ہیں۔ اب جب کہ امریکہ کو شکست ہو چکی ہے خطے کے ممالک اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔ روس ، چین ، ایران اور پاکستان ایک پیج پر ہیں۔ روس شام میں عالمی استعماری طاقتوں کے دانت کھٹے کرچکا ہے۔ چین معاشی میدان میں معجزاتی حد تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ لندن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے جی سیون کے عالمی رہنمائوں کو متنبہ کیا ہے کہ: ’’وہ دن کب کے چلے گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چھوٹے، بڑے، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں۔ اور یہ کہ عالمی امور پر تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیں‘‘۔ کیمو نسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کے انعقاد کے موقع پر یکم جولائی 2021ئکو چینی صدر نے اپنی نشری تقریر میں کہا کہ: ’’چین کو دھمکانے کا وقت گیا۔ کسی طاقت نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اس کا سر دیوارِ چین پر مارکر پاش پاش کردیں گے‘‘۔
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ امریکہ کی افغان جنگ کا نتیجہ صفر نکلا ، 20 سالہ مہم جوئی سانحات پر ختم ہوئی اور افغانیوں کی روایات کو توڑنے کی ہر امریکی کوشش ناکام ہوئی۔اس سے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے افغان مہاجرین کو روس میں آباد کرنے کی مغربی ممالک خواہش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سویت یونین کی دس سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی بند کر دی ہے۔چین کا کہنا ہے کہ 20 سال سے جاری جنگ کے بعد امریکی فوجیوں کے انخلا نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیاہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اْ مید ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگی جو جامع، قابل رسائی اور وسیع نمائندگی کی حامل ہوگی اور افغانستان ہر قسم کی دہشت گرد قوتوں کے خلاف سختی سے کریک ڈاؤن کرے گا۔دریں اثناء چین نے امریکا کی جلد بازی اور منصوبہ بندی کے بغیر انخلا کو بار ہا تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور طالبان کے افغانستان میں قبضے کے بعد ان سے دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کو گہرا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل میں چین کا سفارت خانہ کھلا ہوا ہے ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کیلئے کابل میں ایک مستحکم اور معاون حکومت بیرون ملک انفراسٹرکچر کی توسیع کی راہ ہموار کرے گی جبکہ طالبان چین کو سرمایہ کاری اور معاشی مدد کا ایک اہم ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔
افغانستان میں ببرک کارمل کی حکومت گرانے کے لیے امریکہ نیوہاں دخل اندازی شروع کر دی تھی اور 1979ء میں ’’ مجاہدین‘‘ کی سرپرستی شروع ہوگئی تھی بعد آزاں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت‘ 1992ء میں افغانستان کے قصرِ صدارت تک محدود کردی گئی۔ 1996ء میں ’’ طالبان‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کو اس کی موت ساتھ ہی ختم کر دیا گیا جبکہ 1992ء میں ہی مجاہدین کی متوازی حکومت کھڑی کردی گئی۔ اس کی سربراہی شروع میں صبغت اللہ مجددی کو سونپی گئی، جو صرف دو ماہ تک برقرار رہ سکی۔ بعد میں معاملات پروفیسر برہان الدین ربانی کو منتقل ہوگئے۔ 1996ء سے 2001ء تک افغانستان میں ملا محمد عمر کی سربراہی میں امارتِ اسلامیہ کا ’’طالبان دور‘‘ شروع ہوگیا۔ 2002ء میں حامد کرزئی کی سربراہی میں اسلامی عبوری حکومت کا آغاز ہوااور کرزئی کے بعد اشرف غنی کی حکومت قائم کی گئی جس کا خاتمہ پندرہ اگست2020؁ء کو ہوا جب وہ افغانستان سے بھاگ گئے اور طالبان فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوئے۔ امریکہ نے 31 اگست کی ڈیڈلائن مکمل ہونے سے پہلے ہی افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کرلیا ہے جس کے بعد سب کو اب افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کا انتظار ہے۔
عالمی میڈیا آج جن طالبان کو سامنے لا رہا ہے بیس سال قبل انھیں کی حکومت ختم کرکے کرزئی حکومت قائم کی گئی تھی۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے جرم میں طالبان کو دہشت گرد قرار دیکر افغانستان کے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، انہی کے ہاتھوں میں سلطنت دوبارہ سونپ دی۔ آج اسی بساط پر نئے انداز میں دوبارہ کھیل شروع کرایا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ مستقبل میں یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کریگا کہ ہمارے جانے کے بعد کسی میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ ہماری جگہ لے سکے۔ گویا خطہ مستقل بداَمنی کا شکار رہے گا۔ مگر علاقائی طاقتوں کا مستقبل عالمی امن اور استحکام میں مضمر ہے۔ لہٰذا وہ خطے میں ا سی کے حصول کی حکمتِ عملی پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔
کابل ائیر پورٹ پر حملہ جس میں ایکن سو ستر افراد جان بحق ہوئے جن میں پندرہ امریکی بھی شامل تھے۔ امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں پر بائیڈن شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور دشمنوں کو چن چن کرمارنے کی دھمکی دینے کے بعد انہوں نے ننگرہار میں ڈرون حملے کرواکے خودکش دھماکوں کے دو ماسٹر مائنڈکو موت کے گھاٹ اتار دینے کا دعویٰ کیااور پھر کابل میں ایک کار پر ڈرون حملہ اورمعلوم نہیں نشانہ خطاء ہوا نشانہ خطا ء ہوا یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا کہ بم یا میزائیل نہتے اور بے قصور شہریوں پرجاگرے جس کے نتیجے میں دس افراد جان بحق ہوگئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کابل ایئر پورٹ کے داخلی گیٹ پر جب خود کش حملے ہوئے اس وقت وہ پورا علاقہ بھی امریکی اور نیٹو افواج کے کنٹرول میں تھا۔ دوحہ معاہدہ میں امریکی افواج کی واپسی کیلئے محفوظ راہ فراہم کرنے کے علاوہ طالبان کا یہ بھی معاہدہ تھا کہ وہ افغانستان کی سر زمین کو کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔طالبان کیلئے یہ بھی ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ داعش خراسان یا کسی اور دہشت گرد تنظیم کو افغانستان کی سر زمین پر بے گناہ افغان باشندوں کا خون بہانے سے کیسے روکتے ہیں اور نظام حکومت کیسے چلاتے ہیں۔آیا افغانستان کے موجودہ حالات کو امید کی نئی کرن تعبیر دیا جاسکتا ہے اس کا انحصار طالبان کے طرز عمل بتائیگا۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *