قصہ گوئی کی ایک جدید قسم مختصر افسانہ ہے ۔موجودہ زمانے کے تقاضوں نے اس صنف ادب کو جنم دیا ہے مختصر افسانوں کا فروغ قصہ گوئی کی روایت کی آخر ی کڑی ہے ۔ مختصر ا فسانہ جسے عام طور پر افسانہ یا کہانی بھی کہتے ہیں ۔انگریزی میںShort Storyکہلاتا ہے ۔مشرق اور مغرب کے تنقید نگاروں اور تخلیق کاروں نے افسانے کی تعریف مختلف انداز ،میں بیان کی ہے کسی نے افسانے کے کسی تشکیلی عنصر پر زور دیتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے تو کسی نے دوسرے عنصر کو غالب قراردیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے ۔افسانے نے اپنے آغاز سے لے کر آج تک تبدیلیوں کا سفر طے کیا ہے جس کی وجہ سے کوئی ایک تعریف مختصر افسانے کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے اس کی جامع تعریف مشکل ہے ۔تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ ایک خاص پس منظر میں کسی خاص یا عام واقعات یا تصور ِزندگی کے کسی پہلو کو فنکار انہ انداز میں پیش کرنے کا نام ہے ۔افسانہ اختصار کا متقاضی ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں قصہ ،پلاٹ ،کردار نگاری ،وحدت تاثر اور اسلوب کی چاشنی بھی از حد ضروری ہے ۔ان سب اصول وضوابط کے باوجود افسانے کا فن جامد و ساکن نہیں ہے۔
اُردو افسانے کے آغاز کے حوالے سے اگرچہ سجاد حیدر یلدرم،نیاز فتح پوری،علامہ راشدالخیری اور خواجہ حسن نظامی کا ذکر بھی کیا جاتا ہے لیکن اردو افسانے کی ابتداء کا سہرا حقیقتاً’’منشی پریم چند‘‘کے ہی سر بندھتا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف تواتر سے افسانے لکھے بلکہ اس کے ارتقائی سفر میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔۱۹۰۷؁ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’سوزِ وطن ‘‘منظر عام پر آیا ۔دودھ کی قیمت ،پوس کی رات،بڑے گھر کی بیٹی،نمک کا داروغہ،شطرنج کی بازی،عید گاہ ،حجِ اکبر،نجات،دوبیل،شکوہ شکایت،نئی بیوی،قاتل،آخری تحفہ،سواسیر گیہوں وغیرہ ان کے کامیاب افسانے ہیں۔افسانہ’’ کفن‘‘ پریم چند کا شہکار افسانہ کہلاتا ہے۔
۱۹۳۰؁ء کے بعد اردو میں روسی زبانوں کے ترجمے بڑے پیمانے پر ہوئے ۔اردو افسانے کو روسی،فرانسیسی،جاپانی،انگریزی اور مختلف زبانوں کے اردو افسانوں کے تراجم سے بڑی وسعت ملی ،ان ترجموں نے اردو افسانہ نگاروں کو بھی متاثر کیا اور انہیں موضوع کے انتخاب ،پلاٹ کی تعمیر،ڈرامائی اختتام،تکنیک کے تنوع اور مقصدیت کی طرف متوجہ کیا ۔’’منصور احمد‘‘ اور ’’حامد علی خان‘‘ نے دوسری زبانوں کے افسانوں کے ترجمے کئے۔ ۱۹۳۲؁ء میں افسانوں کا مجموعہ ’’انگارے ‘‘منظر عام پر آیا معاشرے میں پائی جانے والی فرسودہ روایات کے خلاف گھٹن کا احساس ہونے لگا اس ناآسودگی اور گھٹن کا اظہار ’’انگارے‘‘کی شکل میں ہوا ،یہ سجاد ظہیر،رشید جہاں،احمد علی،اور محمودظفر کے افسانوں کا مجموعہ تھا۔ ۱۹۳۶؁ء تا ۱۹۶۰؁ء کادور ترقی پسند تحریک کا دور کہلاتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک اردو ادب کی سب سے مقبول تحریک ہے۔اس تحریک نے اردو ادب پر گہرا اثر ڈالا ۔ یہ تحریک ادب برائے زندگی کا فلسفہ لے کر آئی تھی۔ترقی پسند رجحان کے افسانہ نگاروں نے طبقاتی کشمش ،سماجی انتشار ،اخلاقی اقدارکا کھوکھلا پن ،افلاس،جنسی گھٹن،رجعت پرستی وغیرہ جیسے موضوعات سے اردو افسانے کو روشناس کرایا۔ ۱۹۳۶؁ء تا ۱۹۶۰؁ء تک کے دور میں اردو افسانہ موضوع اور تکنیک کی سطح پر انقلابی تبدیلوں سے روشناس ہوا اور ایسے ایسے تجربات کیے گئے جس نے اردوافسانے کو اعتبار اور وقار بخشا۔
۱۹۶۰؁ء تا ۱۹۸۰؁ء کے دور کو دورِ جدیدیت کہتے ہیں۔ ۱۹۶۰؁ء کی دہائی میں اردو ادب میں غزل اور افسانے کو نئی جہتوں اور نئے زاویوں سے آشنا کرنے کے لیے ادیب اور شاعر میدان میں آگئے ۔جدید غزل کی یہ تعریف کی گئی کہ غزل کو پہلے سے طے شدہ اور لگے بندھے ضابطوں اور مضامین سے آزاد کیا جائے ۔ایک طرف تو اس بات پر زور دیا گیا کہ غزل کا اسلوب تبدیل کیا جائے تو دوسری طرف ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی جس کا نام تھا جدید طرزِ احساس ،یعنی(Modren Sensibility)۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ جدید طرزِ احساس کیا ہے؟ اس کی تعریف یوں کی گئی کہ وہ رویئے جو سماجی ،سیاسی،معاشی،اور ثقافتی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،غزل میں ان کی بھر پور عکاسی کی جائے ،ویسے یہ نقطۂ نظر ترقی پسند ادیبوں کا تھا ،اُن کی رائے میں جو ادبی فن پارہ عصری تقاضوں کا امین نہ ہو اُسے مسترد کردیا جائے ۔ادیبوں کے ایک گروہ نے الزام عائد کیا کہ یہ عناصر غزل کو سیاسی گزٹ بنانا چاہتے ہیں اور اس سے شاعر کی حیثیت ایک نعرے باز کی ہو جائے گی ۔بہرحال یہ بحث تو اب تک جاری ہے ۔اسی طرح جدید نظم کا شور اُٹھا اور پھر جدید افسانہ بھی وجود میں آیا ۔
جدیدیت وہ رجحان ہے جس نے اردو ادب اور خاص طور سے اردو نثر پر اپنا گہرا نقش چھوڑا ہے۔افسانے کے اس جدیدیت کے دور میں فن و تکنیک کے لحاظ سے نئے نئے تجربے کئے گئے ،اس دور کی علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری نے افسانے کو نئی جہت سے آشنا کیا ۔ان افسانوں میں ذات کی گمشدگی اور بھری دُنیا میں تنہا ہونے کا احساس ،عدم تحفظ،بے بسی،بے یقینی،جیسے موضوعات کو سمویا گیا ہے۔۱۹۶۰؁ء کے بعد اردو افسانے میں نئی فکر ،نئے احساس کی ترجمانی ملتی ہے ان افسانوں میں پریم چند اور ترقی پسند افسانہ نگاروں کی حقیقت نگاری سے انحراف اور آدرشوں کے باطل ہونے کی مایوسی ملتی ہے افسانے کا اسٹرکچر پوری طرح توڑ دیا گیا ہے کہانی سے انحراف ،پلاٹ ،کردار،آغاز،انجام اور وحدت ِتاثر اور ربط ضروری نہیں سمجھا گیا ۔زماں و مکاں کا ماورائی تصور اور انسان کا مابعد الطبعیاتی تصور پیش کیا گیا ۔زبان کی شکست و ریخت اور شخصی علامات کا استعمال کیا جانے لگا ۔ہندی ریاضیاتی اور علمی اشکال کے استعمال کی کوشش کی گئی ۔انور سجاد ،بلراج مین را ،سریندر پرکاش ،اوراحمد ہمیش نے افسانے کے اسٹرکچر کو بالکل بدل کے رکھ دیا ۔نئے تجربات کیے ،نیا پیرائے اظہار وضع کیا ۔لسانی سطح پر بھی شکست و ریخت کے عمل کو روا رکھا ،اور ایک نیا اسٹرکچر فراہم کیا ۔یہ افسانہ ترقی پسند افسانے سے مختلف تھا ،وہ انسان کی زندگی کا سیدھا سادہ بیان نہ ہوکر انسان کے ظاہر و باطن کا امتزاج پیش کرتا ہے ۔یہ افسانہ کوئی سماجی حل پیش نہیں کرتا ،صرف سماجی صورتِ حال کو سامنے لاتا ہے ۔افسانہ نگار کسی خاص نظریے یا مقصد کے حصول کے تحت افسانہ نہیں لکھتے ۔معمول سے الگ کوئی انوکھی یا سنسنی خیز بات یا کوئی غیر متوقع انجام پیدا کرکے قاری کوحیران کرتا ہے افسانے میں غیر ضروری تفصیلات سے گریز کیا گیا ۔نثری لوازم کے بجائے شعری لوازم کی طرف مراجعت کی گئی اور شاعری و نثر کی حدیں توڑنے کی کوشش کی گئی ۔حقیقت کو نظر انداز کرکے اس کو ماورائے حقیقت بنانے کی کوشش کی گئی ،اس کے لیے ایسا اسلوب منتخب کیا گیا جو داستانوی خواب نویسی جیسا ہو ۔اس کے لیے بیان کے منطقی تسلسل کو توڑ کر پیش کیا جانے لگا ۔شہروں کے نام نہیں لکھے گئے تاکہ افسانے میں مقامی رنگ نہ آنے پائے ۔کرداروں کی جگہ ا،ب،ج،یا پھر اس کے صفات معمر آدمی ،سرخ بالوں والا نجات دہندہ استعمال کیے جانے لگے ۔
جدید افسانہ نگاروں کی فہرست میں کئی نام شامل ہیں سب کا یہاں ذکر کرنا مشکل ہے ،لہٰذا چند جدید افسانہ نگاروں کی افسانہ نگاری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
انتظار حسین: جدید افسانہ نگاروں میں انتظار حسین کا شمار صف ِاول کے افسانہ نگار کے طور پر ہوتا ہے انتظار حسین اپنے داستانی اسلوب ِاظہار کے لیے جانے جاتے ہیں ۔ہجرت کا المیہ ان کے افسانوں کا غالب موضوع ہے۔تہذیبی جڑوں کی تلاش اور ماضی کی روایات کی بازیافت کے ساتھ انہوں نے داستان جاتک،بدھ مت،تصوف اساطیر،اور برِصغیر کی پانچ ہزار سالہ تہذیب کو جس خوبصورتی اور تخلیقی بصیرت سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے اس نے انتظار حسین کو جدید افسانہ نگاروں میں معتبر ترین حیثیت عطا کی ہے ان کے اہم افسانے ،آخری آدمی،زرد کتا ،ایک بن لکھی رزمیہ ،خالی پنجرہ،کچھوے شہر افسوس،اور ایک خط ہندوستان سے، وغیرہ ہیں۔
قرۃالعین حیدر: قرۃالعین حیدر نے ہند ایرانی تہذیبی قدروں کا زوال نہ صرف دیکھا ہے بلکہ اسے اپنی تخلیقات کا حصہ بھی بنایا ہے۔ملک کی گنگا جمنی تہذیبی وحدت کا بکھراو ٔان کے افسانوں کا موضوع ہے۔ وہ سائستگی ،نفاست اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو عزیز رکھتی ہیں فنی بصیرت سے اپنے افسانوں کا مضوع بناتی ہیں ۔انہوں نے فرد کی تنہائی اور کرب کو بھی افسانوں کا موضوع بنایا ہے لیکن یہ کرب بھی سماجی انتشار اور بکھراؤ کا ہی پیدا کردہ ہے۔اسلوب کے اعتبار سے بھی ان کے افسانے اہم ہیں ۔شعور کی رو ،کی تکنیک کا استعمال انہوں نے فنکارانہ بصیرت کے ساتھ کیا ہے۔حسب نسب،آئینہ،فروش شہر کو رواں ،غازی یہ تیرے پر اسراربندے،ڈالن والا،جلاوطن ،وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔طویل افسانوں میں ،ہاوسنگ سوسائٹی ،اور چائے کے باغ،مشہور ہیں۔
سریندر پرکاش: سریندر پرکاش جدید افسانہ نگاروں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ان کے افسانے اس لحاظ سے اہم ہیں کہ وہ قدیم روایات کی معنویت و اہمیت سے منکر نہیں ہے بلکہ جدید انسان نے ان کی طرف سے جو شعوری اورپرچشم پوشی یا انحراف کا رویہ اختیار کیا ہے اُس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔اس کے باوجود اُنہوں نے اسلوبی اور انسانی سطح پر اپنی ہنر مندی کے سہارے اردو مختصر افسانے میں نت نئے تجربے کئے ہیں ،جس کی مثالیں اُن کے دومجموعوں ،’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ (۱۹۶۸؁ء) اور ’’برف پر مکالمہ‘‘(۱۹۸۱؁ء) میں ملتی ہیں ۔ سریندر پرکاش نے ابتدا ہی سے علامت نگاری کی طرف توجہ کی،اُن کا پہلا افسانہ ’’نئے قدموں کی چاپ‘‘علامتی افسانہ تھا جس میں انہوں نے نئی اور پرانی نسل کے باہمی تصادم و کشمکش ،تضادات اور ان کے احساسات و خیالات کو علامتی انداز مین پیش کیا ہے۔ سریندر پرکاش کے نمائندہ افسانے اسطرح ہیں۔بجوکا،رونے کی آواز،برف پر مکالمہ ،خشت و گل ،نئے قدموں کی چاپ،نقب زن،ہم صرف جنگل سے گزررہے تھے،گاڑی بھی رسد ،تعاقب،ساحل پر لیٹی ہوئی عورت،جنت،قابل زکر ہیں ۔
انور سجاد: انور سجاد جدید دور کے ایک بڑے افسانہ نگار ہیں ۔انور سجاد نے سامراجی ،سیاسی،اور سرمایہ دارنہ استبداد کو بڑی خوبی سے افسانوں میں پیش کیا ہے ۔۱۹۶۴؁ ء میں اُن کا پہلا مجموعہ ’’چوراہا‘‘ منظر عام پر آیا،دوسرا مجموعہ’’استعارے‘‘ ۱۹۷۰؁ء میں شائع ہوا ،اور تیسرا مجموعہ’’آج‘‘ہے جس کا سال اشاعت ۱۹۸۲؁ء ہے۔انور سجاد کے افسانے عصری حسیت کے حامل ہیں ۔ انور سجاد مصور اور شاعر بھی ہیں ، اسطرح مصوری اور شاعری کے امتزاج سے انہوں نے جدید افسانے کو ایک نیا موڑ دیا ۔اُن کے یہاں نثر اور نظم کے درمیان بہت کم فرق نظر آتا ہے ۔ان کے افسانوں میں شعر کا گمان ہونے لگتا ہے افسانہ ’’ماں اور بیٹی‘‘ اسکی اچھی مثال ہے،انور سجاد کے پانچ افسانے جو ’’آج‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے ہیں نثر سے زیادہ شعری عناصر کے حامل ہیں ۔
بلراج مین را: بلراج مین را کے افسانوں کا خاص وصف اختصار ہے۔اس اختصار کے باوجود وہ اپنے افسانوں میں دنیا جہاں کا دُکھ درد اور حقائق زندگی کا ایک طویل دفتر سمودیتے ہیں ۔بلراج مین را کے افسانوں میں شعری رویہ کارفرما نظر آتا ہے جس کے سبب افسانے نہ صرف پُر اثر اور دلچسپ ہو جاتے ہیں بلکہ پچھلے دور کے افسانوں سے مختلف بھی نظر آتے ہیں۔شاعر ہونے کی وجہ سے وہ اپنے افسانوں میں شاعری کے تمام لوازمات کو فنّی مہارت سے پیش کرتے ہیں ۔شعری رویہّ کی واضح مثالیں ’’کمپوزشن ایک‘‘،’’ظلمت‘‘اور ’’کمپوزشن پانچ‘‘ میں ملتی ہیں۔اُن کے تجریدی و علامتی کہانیوں میں تخلیق اظہار کی صداقت پائی جاتی ہے ۔اس ضمن میں ان کے افسانے ’وہ‘‘ ،’’ریپ‘‘ ،’’ایک مکمل کہانی‘‘،’’آخری کہانی‘‘اور ’’پورٹریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ‘‘قابل ذکر ہیں۔
جوگیندر پال: جو گیندر پال نے اپنی افسانہ نگاری کی ابتداء ۱۹۶۰؁ء سے پہلے کی تھی ۔۱۹۶۱؁ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’دھرتی کے لال ‘‘شائع ہوا ۔اس کے بعد، میں کیوں سوچوں (۱۹۶۲ء) ،رسائی (۱۹۶۳ء)،مٹی کے ادراک(۱۹۷۱ء) اور منی کہانیوں کا ایک مجموعہ ،سلوٹیں(۱۹۷۵ء) شائع ہوئے ۔جوگیندر پال اپنی افسانہ نگاری کے ابتدائی دور میں افریقہ میں تھے ،اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’’دھرتی کالال‘‘میں انھوں نے وہاں کی زندگی خصوصاًوہاں کے ہندوستانی نژاد لوگوں کی زندگی اور ان کے مسائل کو پیش کیا۔ ،دو منٹ کی خاموشی،مٹی ادراک،پرش اور پشو،ٹیلی اسکوپ،چہار درویش، باہر کے بھیتر، ربط کا انعقاد ،پادشاہ، بازیچہ اطفال ،وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
اقبال مجید : اقبال مجید کے دو افسانوی مجموعے ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ اور ایک خلیفہ بیان‘‘(۱۹۸۴ء) شائع ہوچکے ہیں ۔جو عصری حسیت ،تکنیکی تنوع اور اسلوب کی ندرت کے لحاظ سے اردو افسانہ نگاری میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اقبال مجید نے فرد اور تہذیبی اقدار کے آپسی رشتے کو لے کر اچھی کہانیاں لکھی ہیں ۔وہ اقدار جو اچھے بھی ہیں اور برے بھی ،جو ہمارے لیے سود مند بھی ثابت ہوسکتی ہیں اور ضرر رساں بھی ۔پیٹ کا کیچوا ،بیساکھی ،رگ سنگ، تھکن، شوکیس ،ایک حلیفہ بیان،مدافعت،خدا،عورت اور مٹی،اور جنگل کٹ رہے ہیں ، وغیرہ ان کے قابل ذکر افسانے ہیں جو جدید افسانہ نگاری میں خوشگوار تبدیلیوں کے مظہر ہیں۔
اقبال متین: اقبال متین کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ اجلی پرچھائیاں ‘‘ اگست ۱۹۶۰؁ء میں شائع ہوا ۔اس کے علاوہ ’’نچاہوا البم‘‘ ۱۹۶۳؁ء ،’’خالی پٹاریوں کا مداری ‘‘۱۹۷۷؁ء، ’’ آگہی کے ویرانے ‘‘ ۱۹۸۰؁ء ’’مزبلہ ‘‘۱۹۸۹؁ء ،میں بھی فسانہ تم بھی کہانی‘‘ ۱۹۹۳؁ ء میں شائع ہوچکے ہیں ۔اقبال متین نے قدیم اقدار کی شکست و ریخت ،نئے پس منظر میں انسانی رشتوں کے نئے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔گریویارڈ،تار تار،نچا ہوا البم ،پر چھائیاں،زمین کادرد، گھڑی، گریو بارڈ،شیبا ،گھڑی ،ایک پھول ایک تتلی، خالی پٹاریوں کا مداری، آگہی کے ویرانے ،میں فسانہ تم بھی کہانی ،شعلہ پوش ،وغیرہ اقبال متین کے اہم افسانے ہیں۔
رتن سنگھ: رتن سنگھ کے افسانے عصری حسیت کے حامل ہیں لیکن ان کا موضوع ابدی انسان ہے جو صدیوں سے ایک سی بدحالی و کسمپرسی کے عالم میں جی رہا ہے ۔اس کے فطرت میں نیکی و بدی دونوں کی کارفرمائی نظر آتی ہے انسانی فطرت کو انہوں نے اپنے افسانوں میں بہت نرمی و ملائمت اور شائستگی سے پیش کیا ہے ۔وہ نئے اچھوتے اور انوکھے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ،مریم، جس تن لاگے ،بے بسی، آخری اداس آدمی، کھلونے ، لیر،میلی گٹھری،جس تن لاگے، یگوں کی کہانی، واپسی ، ایک پرانی کہانی، پنجرے کا آدمی، زندگی سے دور، ایک غریب یُگ، نقلی اور اصلی، بابو، آخری اداس آدمی، خدا نہیں آتا ، یُو ماسٹر ، وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
غیاث احمد گدی: غیاث احمد گدی نے اپنی افسانہ نویسی کی ابتدا ء خاص قسم کے معاشرتی افسانوں سے کی جن میں معاشرہ مختلف پہلوؤں کو مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے ۔سماجی موضوعات پر لکھے گئے افسانوں میں ،کیمیا گر ،قیدی، کالے شاہ، دیمک، افعی ، پرندہ پکڑنے والی گاڈی ،قابل ذکر ہیں ۔جن میں معاشرہ کی بدحالی ،اخلاقی زوال، طبقاتی کشمکش ، انسانی اقدار کی بے قدری، نچلے طبقے کی محرومیت وحق تلفی کو موثر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’بابا لوگ‘‘ ہے۔اس کے بعد دوسرا مجموعہ ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ منظر عام پر آیا ،جس میں انہوں نے علامتی اسلوب اپنایا۔
احمد ہمیش: احمد ہمیش نے اپنی کہانیوں کا مواد فرد کی زندگی کے داخلی تجربات ،نفسیاتی کیفیات اور تاثرات سے حاصل کیا ہے اور اس کی ترتیب میں اظہار کے قدیم و جدید طریقوں کا استعمال کیا ہے ۔ان کے اسلوب کا ایک خاص وصف طنز یا Ironyہے۔احمد ہمیش کے افسانوں کی ایک خاص خوبی ان کا رمزیہ انداز بیان بھی ہے ۔اس ضمن میں چھپکلی بے دیوار ، بے زمینی ،اور گبرولا ،قابل ذکر ہیں ۔احمد ہمیش نے اپنے افسانوں میں ،شعور کی رو ، کی تکنیک بھی استعمال کی ہے اور اس میں آزاد تلازمہ خیال سے کام لیا ہے جس کے ذریعے انہوں نے داخلی یا نفسیاتی کیفیات کا اظہار کیا ہے۔احمد ہمیش کے افسانوں میں علامت نگاری کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔’’مکھی‘‘ میں مکھی کندگی اور غلاظت کی علامت کے طور پر پیش کی گئی ہے ۔علامت نگاری کی ایک مثال افسانہ ’’گبرولا ‘‘ ہے ۔
عابد سہیل: عابد سہیل کا افسانوی مجموعہ ’’سب سے چھوٹا غم‘‘ (۱۹۷۶ء) میں شائع ہوا ،جس میں شامل افسانے ان کی فن پر قدرت کے ضامن ہیں ۔انہوں نے اپنے پیش روؤں سے کوئی خاص اثر نہیں لیا ۔بلکہ اپنی الگ راہ چنی ،وہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور انسانی رشتوں کی نزاکت کو بڑی خوبی سے اپنے افسانون میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے اسلوب میں سادگی ،آہستہ روی اور نرمی ہے۔عابد سہیل نے جدید مسائل کو محسوس کرتے ہوئے بہت سے افسانے لکھے ہیں ۔جن میں، سب سے چھوٹا غم، روح سے لپٹی ہوئی آگ ،دوسرا آدمی ، دو نقش ایک تصویر، پیاسے ، نوحہ گر ،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان کے افسانوں میں جدت کا رنگ نمایاں ہے۔
کلام حیدری : کلام حیدری کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’بے نام کلیاں ‘‘۱۹۵۵؁ء میں شائع ہوا ۔دوسرا مجموعہ صفر ۱۹۷۵؁ء میں شائع ہوا۔ ان کا تیسرا مجموعہ ’’الف ۔لام ۔میم ،کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔کلام حیدری نے کسی خاص موضوع یا ہیئت کو اپنا مقصد و مرکز نہیں بنایا بلکہ حیات ِ انسانی کے مختلف پہلوؤں کو اپنا موضوع بنایا اور مختلف ہئیتی تجربے
کیے۔کلام حیدری کی علامتی کہانیوں میں ’عُنابی کانچ کا ٹکڑا‘ قابل ذکر ہے ۔اس میں داخلی خود کلامی کی تکنیک استعمال کی گئی ہے اور ہندومسلم فساد کے المیے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ان کے افسانوں میں تجریدی عناصر بھی پائے جاتے ہیں ،اس ضمن میں ’لا،اسیر،اور صفر،قابل ذکر ہیں۔
رشید امجد: رشید امجدکا پہلا افسانہ’’سنگم‘‘۱۹۶۲؁ء میں شائع ہوا ۔ان کی تخیلقات کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کا فن ارتقائی ہے۔وہ ابتداء ہی سے نئی راہوں پر گامزن ہوئے اسی وجہ سے وہ اپنے پیشروؤں اور ہم عصروں کے مقابل اہنی انفرادیت کو بھی برقرار رکھ پائے ہیں۔شناسائی،دیوار،تابوت،ڈوبتی آنکھوں کا خواب،بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کاعکس ،گملے میں اگا شہر ،نارسائی کی مٹھوں میں ،شام،پھول،لہو، وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
احمد یوسف: احمدیوسف کے دو افسانوی مجموعے ’’آگ کے ہمسائے ‘‘(۱۹۸۰ء) اور ’’۲۳ گھنٹے کا شہر‘‘ (۱۹۸۴ء) شائع ہوچکے ہیں۔ہر دور میں احمد یوسف کے افسانے عصری حسّیت کے حامل رہے ہیں۔چراغ کشتہ،آگ کے ہمسائے،خطِ مخنی ،تین گھروں کی کہانی،قصہ حجام کے ساتویں بھائی کا ،وہ ایک شخص تھا،نقشِ نا تمام،وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
خالدہ اصغر : خالدہ اصغر نے تجریدی افسانے لکھے ،جو تجریدی آرٹ کے اچھے نمونے ہیں اور جدید افسانے میں نئی جہت کی نشاندہی کرتے ہیں ۔سواری ،شہر پناہ،ہزار پایہ،سایہ، ایک بوند لہو کی، بے نام کہانی، بایاں ہاتھ،وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔
سلام بن رزّاق: سلام بن رزاق کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ننگی دوپہرکا سپاہی‘‘(۱۹۷۷ء) شائع ہوچکا ہے ان کا پہلا افسانہ ’’رین کوٹ ‘‘ (۱۹۶۲ء) شاعر (بمبئی) میں شائع ہوا تھا۔ سلام بن رزاق موضوع کے انتخاب میں بڑی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیتے ہیں ،اور ٹھوس سنجیدہ مسائل پر طبع آزا مائی کرتے ہیں اور ان کے بیان میں رنگینی اور بے جا آرائش و زیبائش نہیں ہوتی ہے۔واسو،حمام،مکھوٹے، دوسرا قتل،کالے ناگ کے پجاری، زنجیر ہلانے والے ،ندی،درمیانی صف کے سورما،وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
قمر احسن: قمر احسن جدیدیت کے دور کے ایک اہم افسانہ نگار مانے جاتے ہیں ۔انکا پہلا افسانہ’’آگ،الاو ،صحرا‘‘ہے ۔تجرباتی اور تجریدی افسانہ نگاروں کی صف میں وہ ایک اہم مقام پر کھڑے نظرآتے ہیں۔نیا منظر نامہ،تعاقب، یا مصطفیٰ، ،طلسمات، اسپ کشپ،مات،ان کے اہم افسانے ہیں۔
انور خان: انور خان جدید دور کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔’’راستے اور کھڑکیاں‘‘ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے ۔انور خان اپنے افسانوں میں ہیئت کی بہ نسبت مواد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔راستے اور کھڑکیاں ،کوؤں سے ڈھکا آسمان، صداؤں سے بناآدمی،سایہ اور سنت، بھیڑیں،شاندار موت کے لیے، پرچھائیں،کتاب دار کا خواب، نرسری، درگا بائی کا ہوسٹل، جنکے سروں پر نیلا آسمان ہے،وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
انور قمر: انور قمرکا پہلا افسانہ ’’نروان ہے اورپہلا افسانوی مجموعہ ۱۹۷۸؁ء میں ’’چاندنی کے سپرد ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔انہوں نے عہد حاضر کے سماجی مسائل کوخصوصاًنچلے طبقے کی زبوں حالی ،محرومی اور معاشرے میں اخلاقی زوال کو اپنا موضوع بنایا۔جیک اینڈجل اور میرا بیٹا، قیدی ، ڈر، چاندنی کے سپرد،کیلاش پربت، چوراہے پر ٹنگا آدمی، وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
حمید سہروردی: حمید سہر وردی کا شمار جدید دور کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔جن کی افسانہ نگاری میں نظم اور نثر دونوں کی خوبیاں سمائی ہوئی ہیں ۔جس کی عمدہ مثالیں خاص طور پر ان کے افسانوں ’’کشتیاں‘‘، ’’ندی اور وہ ‘‘،’’دہشت ہو کی صدائیں ‘‘میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ان کے افسانوں میں فلسفیانہ فکر اور محسوساتی کیفیات کا باہم اتصال نظر آتا ہے ۔سمندر،سفید کو، بے چہرگی، وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
شوکت حیات: شوکت حیات جدید دور کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں ، ان کے افسانے زندگی کے خارجی و داخلی دونوں پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں ۔لا،شگاف ،دراڑ،خلاء، ہوا، اننت کانت، ڈھلان پر رکے ہوئے قدم، کاغذ کا درخت، توسل، ہوسٹل، ساخت، کہ، ختم سفر کی ابتداء ، وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
آغا سہیل: آغاسہیل کے اب تک تین افسانوی مجموعے ’’بدلتا ہے رنگ آسماں‘‘(۱۹۷۵ء) ،’’سہرنا پرساں‘‘، ’’اور عہد زوال‘‘، شائع ہوچکے ہیں۔آغا سہیل موضوع کو ہئیتی تجربوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے جو عہد قدیم سے لے کر عصر حاضر کے تمام اہم واقعات کا احاطہ کرتا ہے۔شگاف در، ڈبویا مجھ کو، بدلتا ہے رنگ آسماں، وقت اُٹھے گا، شہر نا پرساں، موئے آتش ،دیدہ، کنجی، ہاتھی دانت، ٹھکانہ کہیں نہیں ، بازی گر، پرچم، آخری مورچہ، زبان خنجر، وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
جدید افسانہ نگاروں کی فہرست میں اور بھی نام ہیں لیکن مضمون کی طوالت کو دیکھتے ہوئے انھیں مختصر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۱۹۸۰؁ء تا موجودہ دور میں جن ا فسانہ نگاروں نے افسانے کے کارواں کو آگے بڑھایا ہے ۔اُن کے نام کچھ اس طرح ہیں:قاضی عبدالستار(پیتل کا گھنٹا) ،نیر مسعود(طاؤس چمن مینا) ، بیگ احساس(حنظل)، مظہرالزماں خان(پہلے دن کی تلاش میں) ، طارق چھتاری(نیم پلیٹ)، عبدالصمد (شہر بند)، سید محمد اشرف(ڈار سے بچھڑے) ،مشرف عالم ذوقی(بھکا ایتھوپیا)،ساجد رشید(ہانکا)، خالد جاوید(عکس نا آفریدہ ) ،احمد صغیر(انّا کو آنے دو) ، نورالحسنین(بازی گر) ،عارف خورشید(پہچان)، معین الدین جینا بڑے(رنگ ماسٹر)، یوسف عارفی(اس کی لاش) ، ترنم ریاض(باپ)،م ناگ(اسکول)، مظہر سلیم(دیمک)، مقصوداظہر(نیوٹن کا تیسرا قانون)، وغیرہ ۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *