اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس لے لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، اطہرمن اللہ، مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سات رکنی بینچ بدھ سے مقدمے کی سماعت کرے گا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق پرنسپل سیٹ اسلام آباد پر موجود تمام ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیدیاگیا، سات رکنی بنچ ججز کے خط کے معاملے کی سماعت کرے گا،بنچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے،سپریم کورٹ خط کے معاملے کی سماعت بدھ کو کرے گی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا گیا تھا جس میں خفیہ اداروں کی جانب سے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا گیا تھا
یاد رہے اتوار کو پاکستان بھر کے 300 سے زائد وکلا نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو لکھے گئے ایک خط میں زور دیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت خفیہ اداروں کی طرف سے عدلیہ میں مداخلت کے الزامات کا نوٹس لے۔
وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر اس معاملے کی سماعت کرے اور مفاد عامہ ککے اس معاملے کی عدالتی کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔
یاد رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کو ایک چونکا دینے والا خط لکھا تھا جس میں ان کے رشتہ داروں کے اغوا اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں میں خفیہ نگرانی کے ذریعے ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں کے بارے میں کہا گیا تھا۔
خط پر ججز محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحاق خان، ارباب محمد طاہر اور سمن رفعت امتیاز کے دستخط تھے۔
اس کے ایک دن بعد، مختلف حلقوں سے تحقیقات کے مطالبے سامنے آئے تھے اور اس پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججوں کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔
سنیچر کو وفاقی کابینہ نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کے قیام کی منظوری دی جو الزامات کی تحقیقات کرے گا اور فیصلہ کرے گا کہ آیا یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔