پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے وفاقی کابینہ کی جانب سے گندم سکینڈل میں ملوث فوڈ سیکیورٹی کے چار افسران کی معطلی کے فیصلے کو ناکافی قرار دیا اور کہا ہے کہ ان افسران کو قربانی کا بکرابنا کر اصل ذمہ داران کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم سکینڈل پر کسان رہنماؤں پر مشتمل کمیشن بنایا جائے جو اس کی تحقیقات کرکے اصل ذمہ داروں کا تعین کرے۔
فاروق طارق نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے گندم سکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی کا چیئرمین ایسے شخص کو لگایا جو سابق وزیر اعظم انوارالحق کا کڑ کی کابینہ کا سیکرٹری تھا۔
ان کے مطابق کامران علی افضل نے تحقیقاتی کمیٹی کے چیئر مین کے طور پر جانبداری کرتے ہوئے نگران حکومت کو کلین چٹ دے دی۔
انھوں نے کہا کہ ایک وفاقی سیکرٹری اپنے سابق باس وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کر ہی نہ سکتا تھا۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ گندم سکینڈل پر پردہ پوشی نہ کی جائے، اصل ذمہ داران جنھوں نے یہ کلیدی معاشی فیصلہ کیا وہ نگران حکومت اور اس کے وزرا تھے، انھوں نے امپورٹ کی اجازت دے کر دونوں ہاتھوں سے سرمایہ دار کمپنیوں کو لوٹنے کا موقع فراہم کیا۔
فاروق طارق کے مطابق گندم سکینڈل کی وجہ سے 60 کمپنیوں نے بے تحاشہ منافع کمایا جبکہ کسانوں کی اکثریت اپنی گندم کو سرکاری نرخوں پر فروخت کرنے سے محروم رہی اور اب تک اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہے۔
فاروق طارق نے مزید کہا کہ 21 مئی کو ملک گیر کسانوں کے مظاہروں کے باوجود اگر حکومت نے گندم کی خریداری شروع نہ کی اور گندم سکینڈل کے اصل ذمہ داروں کے خلاف ایکشن نہ لیا تو پاکستان کسان رابطہ کمیٹی ملک بھر کے کسانوں کو لاہور اور اسلام آباد میں مظاہروں کے لیے آنے کی دعوت دے گی۔. بشکریہ بی بی سی اردو