سید درویش شیرازی
ادیب اور دانشور معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ آپ سے کچھ لیتے نہیں بلکہ دیتے ہیں اور شاعر اور ادیب معاشرے کی روح اور زبان بھی قرار دیا جاتا ہے اور یہ امر بھی حقیقت ہے کہ شعر و ادب سے دوری، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رویوں کو پروان چڑھاتی ہے اور یہ سچ ہے کہ ادب ا نسانی قدروں کو فروغ دیتا ہے اور لوگوں کے درمیان امن، ہمدردی اور بھائی چارے کو پروان چڑھاتا ہے۔ ادیب اور شاعر ہمارا قومی اثاثہ ہے۔ شاعر و ادیب جہاں کے بھی ہو وہ امن کا پیغام دیتے ہیں اور محبت بانٹتے ہیں ان میں سے ایک عبد الوحید بسمل ہیں جن کا تعلق سرزمین ہزارہ سے ہے۔
آج ہمارا موضوع عبد الوحید بسمل کی کتاب ’’کچے ڈاہلے پیہنگاں‘‘ ہندکو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔کتاب ایک ادبی شاہکار ہے جس سے وحید بسمل کی دوراندیشی کے ساتھ ساتھ اس بات کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی رویوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔عبد الوحید بسمل ہندکو زبان و ادب کی ترویج کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیںسامنے آنے سے ہندکو ادب احسن انداز سے پروان چڑھے گا۔ہندکو زبان کی خدمتاور قومی شعور کی آبیاری کے لیے ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔
عبد الوحید بسمل پیشے کے اعتبار سے ایک بینکار ہیں مگر ان کی زندگی ہمہ جہت ہے وہ یک شاعر بھی ہیں ادیب ہیں اور ڈرامہ نگار بھی ہیں اور ایک براڈکاسٹر بھی ہیں اس کے علاوہ وہ دوستوں کے دوست یاروں کے یار اور ادبی تقریبات کی رونق ان سے ہیں اور مشاعروں کو بھی وہ خوب سجاتے ہیں اس بنا پر نامور شاعر حمد حسین مجاہد نے عبد الوحید بسمل کو ’’جن‘‘ کا لقب دیا ہے کہ ایک اکیلا بسمل اتنے ذیادہ کام کیسے کرلیتا ہے؟
بسمل کی شاعری اور ڈرامہ نگاری کا اپنا رنگ اور آہنگ ہے اور ان کی ادبی اور فنی سطح پر تخلیقی لطف کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ ان کی کوئی بات روا روی میں گزر گئی ہو بلکہ ان کی ہر بات میں گہرائی ضرور ہوتی ہے اور بظاہر ان کی سادہ سی تحریر بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ شگفتہ نگاری کے حوالے سے ایک مشہور نام ہے ۔ اور ’’کچے ڈاہلے پیہنگاں‘‘ کے علاوہ ہندکو ڈراموں پر مشتمل ان کی اہم کتاب ’’کھیڈاں ‘‘ بھی ادبی لطافت کا مرقعہ ہے۔
عبد الوحید بسمل کی بیشتر تحریریں ہماری نظر سے گزری ہیں اور اکثر ان کی تحریروں کے جادو کا اثر محسوس کیا ہے۔ تازہ ترین تصنیف ’’کچے ڈاہلے پیہنگاں ‘‘ سمیت ان کی ساری کتابوں میں ایک قدر مشترک ہے تحریر کی سلاست اور شگفتگی۔ زیر گفتگو کتاب میں بھی یہ وصف اپنی تابناکیوںاور رعنایوں کے ساتھ موجود ہے اور انشائیہ، خاکہ، کالم اور مضمون نگار کے طور پر نہ صرف مستحکم شناخت قائم کرچکے ہیںاوران کا شمار پاکستان کے مقتدر و معتبر لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ مگر تازہ تصنیف سے ان کا ایک اور روپ سامنے آیا ہے اور وہ ہے ہندکو زبان کے ایک کامیاب شاعر کا روپ۔ ’’کچے ڈاہلے پیہنگاں‘‘ کو خود مصنف محض ہندکو شاعری کے ضمن میں رکھا ہے اور مصنف کو اس کا بجا طور پر اختیار ہے کہ وہ اپنی تصنیف کو جس صنف میں چاہے شمار کرے۔ سماجی مسائل کو ابھارنے کی کوشش کی ہے اور خاص طور پر اس میں، تجسس اور رومانس تک ہر وہ جزو موجود ہے اور تحریر کا بہائوایسا کہ قاری مکمل جذبات اپنے قابو نہیں رکھ سکتا ہے۔‘‘
کامیاب تصنیف کسی بھی صنف سے تعلق رکھتی ہو بنیادی طور پر مصنف کے فطری لگائومزاج اور رجحان کا ایسا چاہا ان چاہا پرتو ہی تو ہوتی ہے، جو قاری کے مزاج کا بھی حصہ بن پاتی ہے اور اس کے مطالعے سے حسب توفیق لطف لے پاتا ہے۔ ہندکو شاعری شاعری کو عبد الوحید بسمل نے جو رنگ وروپ دیا ہے اور جو شاعری ادب کے افق پر چمکی ہے، اس نے ہندکو شاعری میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں، خوب خوب تجربات کئے ہیں اور اپنی ایک شناخت قائم کی ہے۔ آہ وفغاں، شوق وانتظار، ہجرووصال، لب ورخساراور محض ماہیوں تک محدود رہنے والی یہ شاعری بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا پیرہن تبدیل کرچکی ہے۔ عبد الوحید بسمل جیسے شعراء نے ہندکو شاعری میں اپنی نظموں اور غزلوں کے حوالہ سے روایت کے بتوں کو توڑا ہے اور اسے عام انسانوں کے مسائل سے جو ڑا ہے۔داخلی باتیں ہوں یا خارجی عوامل، آج ہمیں منظر عام پر نظر آتی ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ کم نہیں ہے کہ اس نے عوام کو اپنی شاعری سے باندھے رکھا ہے اور خواص کو اپنی فکری بصیرت سے آشنا کیا ہے
وحید بسمل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی نسبی شرافت، ادبی ماحول، فطرت سلیم اور گہرے تخلیقی مزاج کی بدولت شہرت کی چاہ سے تقریباً بے نیاز، ادب کے ذریعے دنیاوی علائق کی صف بندی سے دور، مجلسیت کے دل دادہ، شجر ثمربار کی طرح مہربان، مہذب، مشفق اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ اسی لیے اعلیٰ عہدے پر رہ کر بھی ان میں نہ افسری کی بو آئی اور نہ عہدے کی بلندی کو انہوں نے اپنا قد بڑھانے میں استعمال کیا۔ ایمانداری کے ساتھ دنیاوی فرائض انجام دیے اور دل کو خدا، انسان اور تخلیق کی طرف متوجہ رکھا۔ نتیجہ یہ کہ جو بھی لکھا وہ سچا اور اچھا لکھا اور نجی درد و داغ، مشاہدے، تجربے اور جذبے کے تحت لکھا۔ نہ رنگ برنگے تبصروں کی فکر کی اور نہ بے رنگ پیشہ ور نقادوں کے چکر میں پڑے اس لیے ماشاء اللہ خود بھی خوش ہیں اور دوسروں کی خوشی سے خوش بھی ہوتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کو ایک بڑا زخم لگ چکا ہے مگر فرحت بھابی اس زخم کی دوا ہیںاس زخم کے بعد اگر وہ نہ ہوتی تو شاید وہ ٹوٹ پھوٹ چکے ہوتے۔
الفاظ کا وسیع خزانہ عبد الوحید بسمل کے پاس موجود ہے مگر وہ دانشوری کا دعویٰ نہیں کرتے ، بس وہ عمل اور محنت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے مزاج کی شگفتگی، عادات کی مجلسیت، قلم کی بے باکی و بے ساختگی اور یہ سب کچھ ان کی محنت کی وجہ سے ہے کہ ماشاء اللہ ان کا قلم ترقی پر ہے، جس کا بہترین مظہر ان کی حالیہ تصنیف ہے، جسے انہوں نے ’’کچے ڈاہلے پیہنگاں‘‘ کا نام دیا ہے ۔حلقہ یاران کی بنیاد اور تشکیل سے لیکر آج تک ہمارا ساتھ ہے اور اس تعلق کی بنا پر موقع ملا اور راقم نے’’کچے ڈاہلے پیہنگاں‘‘ حرف بہ حرف پڑھا ہے اس وقت بھی جب یہ طباعت سے اراستہ نہیں ہوا تھا اور اس کے بعد بھی جب یہ منصہ شہود پہ آیا ہے ۔ تصنیفی آزادی اور مصنف کے اختیارات اپنی جگہ، ان کا احترام بھی لازم ہے۔ مگر قاری تو بہرحال قاری ہے اور کتاب تو اب قاری کے ہاتھ میں ہے، جسے اس منفرد قسم کی شاعری پڑھتے ہوئے بہت سی اصناف کا لطف آئے گا اور اس پر تقید بھی قارئین کا حق ہے۔امید ظاہر کی کہ عبد الوحید بسمل آئندہ بھی ایسی ہی تخلیقات کے ذریعے قو م کے لیے درست سمت کا تعین کرتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *