سید درویش شیرازی
پشتوزبان میں شعر وشاعری اور افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک مشہور نام ہے عطاء الرحمان عطاء۔ ’’اس میں د اخکو سترمات شو‘‘۔ ان کی کتاب کا نام ہے۔ اس مرتبہ اسی کے حوالے سے کچھ بات چیت پیش ہے۔عطاء صاحب کی بیشتر تحریریں ہماری نظر سے گزری ہیں اور اکثر ان کی تحریروں کے جادو کا اثر رکھتی ہیں جس میں سلاست اور شگفتگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ زیر گفتگو کتاب میں بھی یہ وصف اپنی تابناکیوں کے ساتھ موجود ہے۔
عطاء الرحمان عطاء کا تعلق ضلع بٹگرام سے درس وتدریس سے وابستہ ہیں ۔ پشتو زبان کے شاعر ہیں اور افسانے لکھتے ہیں۔ان کے والد محترم پروفیسر عزیز الرحمان عزیز بھی ایک بہترین قلمکار تھے ۔ اس وجہ سے ہم کہ سکتے ہیں کہ لکھنے کا شوق ان کو ورثہ میں ملا ہے۔عطاء صاحب نسبی شرافت، ادبی ماحول، فطرت سلیم اور گہرے تخلیقی مزاج کی بدولت شہرت بے نیاز، ادب کے ذریعے دنیاوی علائق کی صف بندی سے دور، مجلسیت کے دل دادہ، شجر ثمربار کی طرح مہربان، مہذب، مشفق اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوںنے جو بھی لکھا وہ سچا اور اچھا لکھا اور مشاہدے، تجربے اور جذبے کے تحت لکھا۔عطاء صاحب موٹے فریم کا بڑا چشمہ لگاتے ہیں مگر دانشوری کا دعویٰ نہیں کرتے۔ ان کا چشمہ آنکھ کے لیے ہے۔ بصارت اور بصیرت کے لیے انہیں نہ کسی چشمے کی ضرورت ہے، نہ نظر زدہ نظر کی۔
ادب اور فن کی سطح پر تخلیقی لطف کا بھی عجیب معاملہ ہے۔ کبھی گہری سے گہری بات بس یونہی روا روی میں گزر جاتی ہے اور کبھی بظاہر سادہ سی تحریر بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے توعطاء صاحب کی تحریرمیں ظاہری شان و شوکت کے بجائے معنوی خوبیاں ملتی ہیں، وارداتِ قلب کا انداز بھی بدلا ہوا ہے، اشعار میں اظہارِ درد و غم ، کاوش و محنت اور اسلوب بیان بہت خوب ہے۔ان کا کلام دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ وہ ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے ، خوش فکری اورخوش گوئی کی دولت کی امانت دار ہے۔ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں ہوں یا افسانے ، ان میں فلسفہ حیات بھی ہے اور لطفِ کائنات بھی موجود ہے۔ دراصل ہم معاشرتی زندگی کو واقعات اور حادثات کی جولانگاہ کہتے ہیں۔ واقعات اور حادثات کی اس جولانگاہ میں جو کوئی گریہ سفر اور سینہ سپر ہے ، اگر وہ شاعر ہے تو اس کی شاعری کا نقش فکری تخیل ، حِسّی اور جذباتی رد عمل کی تصویر بن کر ہمارے روبرو آتا ہے۔ایسی تحریر میں لکھنے والے کے رجحانات اور میلانات کی نشاندہی ہوتی ہے، جس سے پڑھنے والوں کے اظہار کا اسلوب متاثر ہوتا ہے۔ عطاء صاحب کی قلمکاری میں کہیں تو نسیم کی نرمی ہے توکہیں بادلوں کی گھن گرج اور کبھی جلتی ہوا کی شدت ہوتی ہے، کیوںکہ شاعر نے اپنی ذات کے رشتے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور یہ ذات کا رشتہ پورے معاشرے کی ذات کا رشتہ بن گیا اور یوں بالواسطہ اس ذاتی یا شخصی رشتے کے پردے میں ایک اجتماعی تاثر، ردِ عمل اور رویّے کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریر سے یہ گمان پنپتا ہے کہ انہوںنے ہم کو زندگی برتنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ اس میں تقدیسِ وفا اولین اصول ہے آئین وضع داری محبت ، مروت ، صبر و شکر اور راضی برضا رہنے کا۔ثروت زہرا نے زندگی کے سفر میں اعتماد اور امید کو اپنا زادِ سفر بنایا۔ ان کی نظموں کے عنوانات سے زمانے کے موجودہ کرب کی صدا سنائی دیتی ہے۔
عطاء صاحب افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور شاعرکے طور پر نہ صرف مستحکم شناخت قائم کرچکے ہیں، بلکہ پشتوکے مقتدر و معتبر لکھنے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، مگر تازہ تصنیف سے ان کا ایک اور روپ سامنے آیا ہے اور وہ ہے ایک کامیاب ناول نگار کا روپ۔ ’’اس میں د اخکو سترمات شو‘‘ کردار نگاری، قصہ، پلاٹ، تجسس کا جزو موجود ہے اور یہ تحریر کا بہائو ایسا کہ شروع کرکے مکمل پڑھے بغیر چین نہ آئے، بلکہ بعض حصے تو پڑھنے کے بعد بھی چین نہیں لینے دیتے۔عطاء صاحب ادبی یا غیر ادبی مغالطے کا شکار نہیں ہیں، اسی لیے مزاج کی شگفتگی، عادات کی مجلسیت، قلم کی بے باکی و بے ساختگی نہ صرف باقی ہے بلکہ ترقی پر ہے، جس کا بہترین مظہر ان کی یہ تصنیف ہے،۔
عطاء الرحمان عطاء کے جذبات اتنے سیدھے سادے نہیں جو عشق کے سطحی معاملات اور پیار کی عامیانہ باتوں سے مطمئن ہو سکیں۔ یہاں جذبات کے پردے میں ایک الجھا ہوا اور تہہ در تہہ ذہن بھی بول رہا ہے جو ان معاملات کو غیر جانبدار ہوکر بھی دیکھ سکتا ہے۔ وہ معشوق کی مجبوری کو بھی سمجھتا ہے۔صرف خود ہی آہ نہیں بھرتا کبھی وہ زمانے سے بد گمان ہوکر محبوب سے بھی بد گمان ہو جاتا ہے اور بعد میں اپنی اس عشق نا آشنائی پر افسوس بھی کرتا ہے۔ ادب میں سب سے مشکل کام ذہنی تحفظات و تعصبات، ذاتی پسند و ناپسندسے ماوراء ہوکر اپنے دور کی اور خود اپنے انفرادی احساسات و ردِ عمل کا عکس شاعری میں جھلکنا ضروری ہے جس پر عطاء صاحب پورے اترتے ہیں۔ عطاء صاحب کے ذہنی اور طبعی انقلاب کا اثر پڑھنے والے پر ضرور ہوتا ہے اور یہی کامیاب افسانہ نویسی اور شاعری کی سند ہے۔ اس قسم کے افسانے لکھنے والے اورشاعری کرنے والے اس شاعر کے محرکات ہمیشہ باقی رہیں گے جس سے قارئین مستفید ہوتے رہیںگے۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *