سید درویش شیرازی
چی سفر ئی تل د مینی سفارت دے
زہ د ھغی قافلی نمائندہ یم
سرحدونہ می نظر کی نہ زائیگی
د نڑئی د ہر وطن زہ باشندہ یم
یہ شعر سلیم راز کا ہے جو پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعراور ادیب ہیں جنہوں نے شاعری کو سماج سے جوڑا ہے جن کی شاعری معاشرے کی عکاسی کرتی ہے جد وجہد اور مزاحمت ان کی زندگی کا محور ہے ، سلیم راز کل وقتی ادیب ہیں اور تصنیف و تالیف ان کا مشغلہ ہے ، پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے ان کو حکومت پاکستان سے نوازا جاچکا ہے، وہ بیک وقت وہ پشتو اور اردو میں لکھتے ہیں ، وہ شاعر ، ادیب، نقاد اور کالم نگار ہیں ، وہ حضرت غفاری ؓ کے معاشی فلسفہ سے متائثر ہیں ، سلیم رازانیس مارچ 1939؁ء چارسدہ میں پیدا ہوئے بنیادی طور پر ان کے اباء و اجداد سے تعلق ضلع بٹگرام (ہزارہ)سے ہے جو اہلیان بٹگرام کیلئے ایک اعزاز ہے۔ وہ سیلانی طبیعت کے مالک ہیں، سیر سپاٹے کے شوقین ہیں آپ کہ سکتے ہیں کہ وہ مسافر ادیب ہیں کسی ایک جگہ ان کیلئے ٹکنا ان کے مزاج کے خلاف ہے۔
ممتاز شاعر عطاء الرحمان عطاء اور بٹگرام کے معروف شاعر قمر صحرائی کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پر ان سے ہماری ملاقات ہوئی۔ سلیم راز اس قحط الرجال میں ترقی پسند نظریات کا پرچم تھامے پوری استقامت کے ساتھ انسان دوستی کا پرچار کرتے پھرتے ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے کا ایسا متحرک کردار ہیں جو اپنی ذات میں انٰجمن ہے،سلیم راز کی ادبی سرگرمیاں اور اعزازات بے شمار ہیں، وہ پشتو عامی کانفرنس کے بانی چئیرمین ہیںاورعالمی سطح پر دو پشتو عالمی کانفرنس کرا چکے ہیں۔ ملک گیر سطح پر پاکستانی زبانوں کی ترقی پسند تنظیم عوامی ادبی انجمن (پشتو شاخ) پختونخواہ کے کنوینر ہیںنیز وہ مسلسل بائیس سال تک انجمن مصنفین (خیبر پختونخواہ) کے جنرل سیکریٹری رہے۔ اس وقت وہ عالمی پشتو جرگہ کے چئیرمین ہیں۔ انٹر نیشنل کانگریس آف رائٹرز کے بانی ممبر ہیں، اکادمی ادبیات پاکستان کے تاحیات ممبر ہیںاس کے علاوہ بے شمار ادبی تنظیموں کی بنیاد رکھی ہے اور ان کی سرپرستی کر رہے ہیں ۔
ان کو فارسی پر بھی عبور حاصل ہے اوراپنے وقت میں گلستان اور بوستان اور قرآن حکیم کا ترجمہ بھی پڑھا اورحج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی ہے ۔ ترقی پسندی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بندہ مذہب سے باغی ہوگیا، سلیم راز فرقہ واریت اور مورثی سیاست کے خلاف ہیں اور انسان دوست ہیںان کا نظریہ ہے کہ روٹی ، کپڑا اور مکان کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے ، وہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے کردار سے متائثر ہیں ، ہر قسم کے تشدد کو وہ رد کرتے ہیں ۔
اسی طرح سلیم راز کو اس لحاظ سے بھی بڑا شاعر کھا جا سکتا ہے کہ انہوںنے طبقات کو ردکیا ہے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت میں الیکشن کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا کھیل قرار دیا ہے اور مورثی سیاست کی نفی کی ہے اوران کا کہنا ہے کہ ہر قسم کے استحصال سے پاک سماجی انصاف پر مبنی ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام اس ملک کی بقا کے لیے ناگزیر ہے، ترقی تب ہی ممکن ہوگی جب جاگیرداری کا خاتمہ اورلوگوں کو انصاف ملے گا۔نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی سے گہرا تعلق رہا۔ فیض احمد فیض، سید سبط حسن، میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالغفار خان (باچا خان) اجمل خٹک سمیت نامور شخصیات سے صحبت رہی، امام علی نازش بھی کافی قریب رہے، روس، بھارت اور افغانستان کا مطالعاتی دورہ کر چکے ہیں۔ ان کے خیال میں اس خطے میں امریکی سامراج کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے شدت پسندی کو فروغ دیاگیا اوردہشت گرد ایک طویل عرصے سے اس قوم کو امن پسندی کی سزا دے رہے ہیں۔ ہزاروں شہری دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔
راز کی شاعری میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی،ان کو انسانیت سے محبت ہے اورظلم اور استحصال اور سرمایہ داریت اور جاگیرداریت سے نفرت ہے۔محبت اور نفرت کی یہ دونوں علامتیں راز کی شاعری اورمضامین میں مختلف شکلوں میں رونما ہوئی ہیںاس لئے ان کی تخلیقی فکر کو صرف ان دوعلامات کے آئینے میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ سلیم راز ن نے اپنی شاعری میںتشبیہات‘ علامات و استعارات کا بر محل استعمال کیا ہے ۔ ان کا خاص انداز ہے اور جدت و ندرت نے بھی راز کی تخلیقی عظمت کو سربلند کردیا ہے۔ اس لیے یہ بات بلالیت و لعل کہی جاسکتی ہے کہ راز ایک عظیم شاعر ہے جس نے فن کے جملہ مطالبات کو پورا کیا اور وہ سارے عناصران کی شاعری میں موجود ہیں، جو کسی قلم کار کو عظیم قرار دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔
’’اچھا شاعر وہ ہے جو غم جاناں کے ساتھ ساتھ غم دوراں سے بھی واقف ہو اور اور سماج جو ہوتا ہے اس کا شعور رکھتا ہو‘‘۔سلیم راز کو کو زندگی کی حقیقتوں کا ادراک زیادہ ہے اپنی اانکھوں سے حقیقتوں کا مشاہدہ کیااور پھر انہوںنے قارئین کو زندگی کے ٹھوس حقائق سے آشنا کیا۔وہ یہ کہتے ہیں کہہمارہ معاشرہ موقع پرستی اور منافقت کی زد میں ہے، ابلاغ سے جڑے تمام شعبے قوم کی فکری رہنمائی اور اخلاقی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن اب ان کا ریموٹ سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہے، پھر بھی جن لوگوں کا ضمیر زندہ ہے وہ جبرو استحصال کے خلاف مزاحمت کے راستے پر گامزن ہے۔
انہوںنے اقتصادی آزادی، امن انصاف اور مساوات کے خواب نسل انسانی کی بقا کے خواب کو اپنی شاعری کا عنوان بنایا ہے کیونکہ ان کے نذدیک زندگی کے خارجی مسائل کا حل شاعری نہی بلکہ وہ داخلی مسائل کا حل ضروری قرار دیتے ہیں اور وہ انفرادیت پر اجتماعیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے اشعار میں اقتصادی، سیاسی، سماجی آزادی اور مساوات کے جذبے ملتے ہیں او ریہ ان کے مخصوص شعری موضوعات ہیں۔ ان کا کہنا ہے 11 اگست 1947ء؁کو بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جو سمت متعین کی تھی اسے آئین کا دیباچہ بنایا جائے۔ اسی طرح رواداری کو فروغ ملے گااور نفرتوں کا خاتمہ ہوگا۔
سلیم راز کو متعدد ایوارڈز مل چکے ہیں ان کی تصنیفات میں دزخمونو پسرلے (زخموں کی بھار) تنقیدی کرخے، لہ باڑے تر باڑہ گلی (باڑے سے باڑہ گلی تک) رپوتاژ، زہ لمحہ لمحہ قتلیگم، (میں لمحہ لمحہ قتل ہوتا رہا) پشتو شاعری اکسٹھ سال، پشتو انشائیہ پچاس سال، پشتو سفر نامہ پچاس سال، یقین اردو مقالوں کا مجموعہ اس کے علاوہ سلیم راز کے پچاس سے زیادہ کتابیں غیر مطبوعہ ہیں۔پشتو کے مقبول ترین کلاسیک شاعر رحمان بابا کی شاعری پر سلیم راز اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کتاب مارکیٹ میں موجود ہے جس کو ادبی حلقوں میں بھرپورمقبولیت حاصل ہے کتاب کا نام ہے ’’ رحمان بابا ایک فکری مطالعہ‘‘ اس کتاب میں ایک نئے انداز میں رحمان بابا کی شاعری اور طرز فکر کو موضوع بحث بنایا گیا اور عام ڈگر سے ہٹ کر ایک نئے زاویے سے پشتو کے اس مقبول ترین کلاسیک شاعر کی شاعری کو پرکھا گیا ہے۔ عام طور پر محققین اور ادب کے ناقدین نے رحمان بابا کو ایک درویش اور صوفی شاعر کے روپ میں پیش کیا ہے لیکن سلیم راز نے اس کتاب میں رحمان بابا کے دیوان میں موجود ان اشعار کو جمع کر کے ان پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جو ایک ترقی پسند اور عملی انسان کے طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں یہ سلیم راز کے قلم اور فکر کا کمال ہے۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *