mail.google.com_سابق صدر مشرف نے ایک تازہ انٹریو میں کہا کہ ’ ڈیموکریسی ہو، یا ڈکٹیٹرشپ ہو، یا کمیونزم ہو یا سوشلزم ہو، یا بادشاہت ہو۔۔۔ عوام کو، یا ملک کو اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ عوام اور ملک کو ترقی، عوام کی خوشحالی چاہیے۔ عوام کو روزگار، خوشحالی اور سکیورٹی چاہیے۔‘اس تناظر میں دیکھا جائے توملک شدید معاشی اور دہشت گردی کے لپیٹ میں ہے اور ہمارے سیاست دان سیاست چمکا رہے ہیں اس حقیقت میں کوئی مبالغہ نہیں کہ نعرے ایجاد کرنے اور ہجوم اکھٹا کرنے اور عوام کے من پسندسیاسی اصطلاحات وضع کرنے اور ایک دوسرے کو ترکی بہ ترکی جواب دینے میں ہم دنیا میں یکتائے روزگار ہیں سیاست میں ایسے ایسے عنوانات تخلیق کرتے ہیں اور ایک خاص پلیٹ فارم کے تحت عوام کو جمع کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ملکی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دس سالہ دور میں بھی سیاست دان مرغ لڑائی کی طرح ایک دوسرے کو پٹختے رہے اور ایک بیمار اور فالج ذدہ شخص جو صحیح طرح بول بھی نہیں سکتا تھااور نہ اس کی زبان اس کی امریکی خاتون سیکریٹری اور اس کی والدہ کے علاوہ کوئی سمجھ سکتا تھا اس نے اسمبلیاں بھی توڑی اور ملک کے سیاہ وسفید پر قابض رہا مگر ہم اسے برداشت کیااور مارشل لاء لگا تو اس چھتری کے نیچے بھی بکاؤلیڈرزمفادات کے حصول کیلئے ایک دوسر ے کو نیچا دکھانے اور خود کو بکنے کیلئے پیش کرنے میں سبقت کرتے رہے قومی سوچ ، بامقصد نظریہ، قومی ترقی پلاننگ اور صحیح حکمت عملی نہ ہونے کے نتیجے میں سامراجی غلامی میں ہی عافیت محسوس کرتے اور قومی مفادات کو اس طرح بیچنے کے لئے تیار ہوتے جیسے حلوائی اپنی دکان پر مٹھائی بیچتا ہے آج بھی ہجوم اکھٹا کرنے والوں کا المیہ بھی یہی ہے کہ ان کے ہاں سوچ ،نظریہ اور قومی مفادات کی بجائے ،متعصب سوچ اور ذاتی وگروہی مفادات کے ساتھ بیرونی آقاؤں کے مفادات عزیز ہیں جس کے واضح اشارے گاہے بگاہے سیاسی اکابرین کے بیانات کی روشنی میں ملتے رہتے ہیں۔گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ گواہ ہے وطن عزیزمیں حقیقی سیاسی قیادت موجود نہیں رہی ابتدا ء سے لے کر آج تک سیاست کے سنگھاسن پربراجمان بزر جمہوری ملک و قوم کا نام تو لیتے رہے لیکن ملک و قوم کی تعریف ان کے ہاں ذاتی جاگیر اورخاندان و گروہ ہوتا تھاقومی سیاست کے نام پرذاتی مفادات کا حصو ل اولین ترجیح ہوتی تھی اور جب بات ذاتی مفادات کی ہوئی تو اس میں لڑائی و جھگڑے کا کھیل لازمی عنصرکی حیثیت اختیارکر گیا یہ کھیل اُسوقت اور مظبوط ہو گیا جب امریکی سامراج نے یہاں کے مقتدر طبقات کو اپنے ذیر اثر کر لیا ۔یہاں ہر اچھے عمل کو سبوتاژ کرنابھی ایک روایت ہے اوریہ ایک بھی حقیقت ہے کہ یہاں آئین میں ترمیمات ہوتی رہتی ہیں اور بل وغیرہ پاس کئے جاتے ہیں لیکن کیا ان آئینی ترامیم کے نتیجے میں ملک میں موجود سامراجی استحصالی نظام تبدیل تبدیل ہوتا ہے؟ اور کیا ان ترمیمات کے ذریعے جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے ؟یقیناًاس کا جواب نفی میں ہے اور کیاان آئینی ترامیم کے نتیجے میں مزدوروں کے معیار ذندگی میں کوئی فرق آیااورغریبوں کی غربت اور امیروں کی کی امارت میں کوئی کمی ہوئی ہوئی ہے اور کیا طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوا ہے؟ اور کیا ججوں کے تقرر کے جھگڑے چکانے میں عد ل و انصاف کا بول بالا ہوااور کیاقوم کے حقیقی مجرم کیفر کردار کو پہنچے ؟ اور کیادہشت گردی اور بنیاد پرستی ختم ہوئی یامذہبی و سیاسی فرقہ واریت کے جراثیموں کا خاتمہ ہوا؟۔بازار سیاست کے تاجروں کو ذرا یہ سوچنا چاہیئے تھا کہ اگر بھولے بھالے ،معصوم اور ستم ذدہ عوام کو ان لولی پاپ ٹائپ ترامیموں سے (جن سے آکثریت عوام شاید ہی واقف ہوں) اورمحض نعروں سے کچھ دیر کیلئے بہلایا جائے تو اس سے ان کے پیٹ کے کون سے کیڑے بلبلاتے ہیں؟بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی مفادات وسوچ کی حامل باکردار ،باصلاحیت قومی قیادت کا فقدان ہے کیوں کہ کسی بھی قوم کی حقیقی اور خیر خواہ قیادت وہی ہوتی ہے جس کے پاس قومی وحدت کا نظریہ ،قومی مسائل کا فہم وادراک اور ان کے حل کرنے کا شعور واہلیت ہو ،قوم کے سامنے جوابدہی کا احساس ہو ۔ہمارے حکمران اور لیڈرز ہم میں سے نہیں وہ امریکی سامراج کے وفادار اور اس کو جوابدہ ہیں آج حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار ،سیاسی رہنماہوں یا مذہبی کارڈ کھیلنے والے سب کو اپنے اپنے مفادات کا پاس ہے قوم کو ڈبونے میں سب مشترکہ کردار ادا کر رہے ہیں ،اس سیاست گردی کا ایک ہی علاج ہے کہ اس روگی نظام کو تبدیل کر کے قومی سوچ و نظریہ کے مطابق صحت مند نظام قائم کیا جائے لیکن یہ سب کچھ محض نعروں سے نہیں ہوتا اس کیلئے عمل کی ضرورت ہے جو مشکل ضرور ہے مگر نہ ممکن نہیں کیونکہ کبھی تو وہ صبح طلوع ہوگی جس کا قوم کو اتنظار ہے!!!۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *