سچی بات یہ ہے کہ آج تک امریکہ نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیاہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو آیندہ سے کسی بھی قسم کی امداد نہ دینے کی دھمکی دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ گذشتہ پندرہ برسوں میں ہم نے پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد دی جو بے وقوفی تھی۔ اب پاکستان کو کوئی امداد نہیں ملے گی۔انہوںنے الزام عاید کیا کہ ہم پاکستان کو بھاری امداد دیتے رہے لیکن دوسری جانب سے ہمیں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی کے مرتکب عناصر کو امریکہ نے افغانستان میں بھیٹایا ہوا ہے اور ان کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں ہیں.
پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس توہین آمیزبیان کا سخت نوٹس لیا ہے اور اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے ایک احتجاجی مراسلہ ان کے سپرد کیا ہے۔ اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان پر امریکا سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ دفتر خارجہ میں امریکی سفیر کو تھمائے گئے احتجاجی مراسلے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکی صدر کے پاکستان مخالف بیان پر وضاحت پیش کی جائے کیونکہ اس جنگ میں اخراجات کولیشن فنڈز سے کیے جاتے تھے۔
در اصل امریکہ کو افغانستان اورشام میں مار پڑ رہی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاک، امریکا تعلقات میں تناؤ کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈر کانفرنس ہوئی جس میں تینو ں مسلح افواج کے سربراہان موجود تھے۔اس موقع پر جیو اسٹریٹجک اور داخلی سیکیورٹی کے حوالے سے غور کیا گیا جبکہ اجلاس میں آج ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق امور پر بھی غور کیا گیا۔واضح رہے کہ امریکی صدر کے بیان نے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے۔
عراق ، افغانستان ، شام ، یمن اور لیبیا میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مشرق وسطی کے واقعات میں بڑی طاقتوں کے سیاسی فیصلوں کی اب کوئی وقعت نہیں رہی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی انسان دشمن پالیسیاں اور جمہوریت کے نام پر فوجی دھمکیاںاور اپنی معیشت کے حوالے بلند بانگ دعوے سب کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔
جب سے امریکہ نے اپنے آپ جمہوریت کے نام پر بین الاقوامی جنگوں میں الجھایا ہے اس کی معیشت تباہی کے دھانے پر ہے جبکہ اس کے مقابل چائنا نے اپنے آپ کو جنگوں سے بچایا ہے تو چائنا کی معاشی ترقی دنیا کیلئے اچھی مثال ہے جبکہ امریکہ اپنی غلط حکمت عملیوں اور جنگوں میں الجھنے کی وجہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی اقتصادی اور سیاسی پاور ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کاسب سے بڑا مقروض ملک بن گیا ہے امریکی قرضے143 کھرب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں حتیٰ کہ جب تک امریکی حکومت کو قرض لینے کی حد میں اضافے کی منظوری نہیں ملتی تو امریکی وزارت خزانہ کے پاس ادائیگیوں کے لیے رقم تک نہ ہوتی یہی وجہ ہے کہ عراق، لیبیا اور افغانستان میں بے مقصد لڑنے والے فوجیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل سے ہوتی ہے۔‘‘۔ امریکی اقتصادی بحران کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت مانے جانے والے امریکہ پر فی سیکنڈ40ہزار ڈالر کاقرض بڑھ رہا ہے ۔
امریکی وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی خزانے میں نقد رقم صرف 73ارب 70کروڑ ڈالر رہ گئی ہے اوراگر قرض لینے کی حد میں اضافہ کی منظوری نہیں دی گئی ہوتی تو حکومت کو اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے رقم کی شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت دیوالیہ ہوکردھندہ ہوسکتی ہے۔
ایک رپورٹ میں یہ ایک دلچسپ خبر ہے کہ دنیا کے امیر ترین ملک امریکہ کے خزانے میں اتنے ڈالر بھی نہیں ہیں جتنے ایپل کمپنی کے پاس ہیں۔ امریکی ریزروبینک میں 73.76ارب ڈالر رہ گئے ہیں جب کہ ٹکنالوجی کی دنیا میں ایک بڑا نام ایپل کمپنی کی تجوری میں نقد رقم 75.87ارب ڈالر جاپہنچی ہے۔
یہ بھی پیشنگوئی ہے کہ امریکہ چھ خود مختار ریاستوں میں تبدیل ہوسکتاہے اگر سویت یونین ٹوٹ سکتا ہے تو امریکہ کیوں نہیںامریکہ کا جنگوں میں الجھنے کا سب سے ذیادہ فائدہ روس اور چین نے اٹھایا ہے اور اب یہ دنیا کی بڑی معاشی قوتیں ہیںاور لگتا یہ ہے کہ چین اور امریکہ مستقبل میںدنیا کے نئے مگر اہم کھلاڑی ہوں گے اور ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے سویت یونین کی طرح امریکہ کی بھی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجائے گی اور اس کے دیوالیہ ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ امریکہ میں قرضوں کے بحران کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ پہلی بار نہیں ہوا ایسا اس سے قبل 1790پھر1933پھر ایک جزوی بالی بحران 1979اور پھر سابق صدر جارج بش کے آخری دور2008میں اقتصادی بحران اپنے پنجے گاڑ چکا ہے اس بحران نے تو امریکی ٹیکس دہندگان کو گھروں سے بے گھر کر کے فٹ پاتھ پر لابٹھایا تھا لیکن جارج بش نے دنیا کو جنگوں کی ا ٓگ میںجھونکے رکھا یہی وجہ ہے کہ آج خود امریکی سیاستداں اپنے ملک کی ان جنگ جو قسم کی پالیسیوں سے بے زاری کا کھلم کھلا اظہار کررہے ہیں۔ امریکہ کے سابق انٹلی جینس چیف ونس بلیئر نے کہا ہے کہ محض 4ہزار دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑکے لیے سالانہ 80ارب ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ 9/11کا واقعہ گویا امریکہ نے اپنے پائوں پر خود کلھاڑی سے وار کیا ہے اور اس واقعہ کے بعد اربوں ڈالر جنگوں میں جھونک دئے گئے ہیں جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں اور لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بھی اس کے ذمہ ہے ۔
اور یہ امراب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا ہے کہ امریکہ دہشتگردوں کو اپنے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے امریکہ دہشتگرد گروہوں کو اپنی مخالف حکومتوں کے خلاف استعمال کررہا ہے اور اس وقت شام کی حکومت امریکہ کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہی ہے۔ اس روسی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ داعش جیسے خطرناک دہشتگرد گروہ امریکہ کی حمایت سے وجود میں آئے ہیںوہایٹ ہاوس خاصؒ خاص کر افغان جنگ کے دوران اور اس کے بعد دہشتگردوں کی بھرپور مالی اور سیاسی حمایت کی ہے جوامریکہ نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اسی پالیسیوں پر وہ اب بھی گامزن ہے اور امریکہ کی یہ روش امن عالم کے لئے شدید خطرہ ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک امریکی رپورٹ کے مطابق ا گر سابق امریکی جنگجو صدر جارج بش غور وفکر اور تدبر وفراست اور صحیح انتظامی حکمت عملی سے کام لیتے تو7.3 ٹریلین ڈالر یعنی قرض کے ایک تہائی حصے کو تو بچایا جاسکتے تھے۔ امریکہ کی عراق، لیبیا اورافغانستان میں ’جنگ بازی‘ سے نہ صرف اس کی معیشت تیزی سے تباہی کی طرف گامزن ہے بلکہ اس کے منفی اثرات لگ بھگ پچاس امریکی ریاستوںاور ان کے اتحادیوں پر بھی مرتب ہوں رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اس کا قرض ہے اسی قرض کی وجہ سے بدانتظامی اور غلط طرز عمل کا اختیار کرنا اور فوجی کارروائیوں کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنالینا ہے جس نے اس کے سینکڑوں ٹریلین سرمایہ کو بغیر ڈکارمارے ہضم کرلیااور دنیا کو وہ جنگوں میں اس لئے الجھا رہا ہے کہاسلحہ فروخت کر کے کمزور معیشت کو سہارا دے سکے اور ممالک کو کمزور کر کے ان کے وسائل پر قبضہ کر سکے جیسے عراق اور لیبیا میں کر رہا ہے صدر صدام اور کرنل معمر کی پالیسیاں وہاں کی قومی مفاد میں تھیں اس لئے امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان کو منظر نامے سے ھٹایا اور ایسے کرداروں کو سامنے لایا مگر ان دو ممالک اب تک حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی نحوست جاتی ہے وہاں کی معیشت اور عوام کی حالت کو تباہ کر دیتی ہے۔
امریکہ کے زوال سے اس کے اتحادی ممالک کی معیشت کی تباہی کا بھی قوی امکان ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریاں تیزی سے سامنے آرہی ہیںاگر موجودہ حالات میں اس پر ناگفتہ بہ معیشت کو قابو نہیں کیاگیا تو اس آگ کی چنگاریاں دور دور تک پہنچیں گی اور اس کے اثرات پوری دنیا کی معیشت پر مرتب ہونگے اور جن ممالک کی معیشت کا دارومدار امریکی اور ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں پر ہے وہ ممالک بری طرح متاثر ہونگے ۔
