نام نہاد مفتیوں نے لباس ِ خضر میں ملبوس ہوکر نوسربازی کی حدیں پلانگ کر عوام کے 500ارب روپئے لوٹ کر چلتے بنے اور کچھ کردار اب بھی پارسا بنے ہوئے ہیں اور حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ اب بھی وہ فتووں کے میزائل چلارہے ہیں (متاثرین یہ بھی سوال پوچھتے ہیں کہ جن مولویوں نے یہ فراڈ کیا ان کے پچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں؟)۔ ضلع مانسہرہ کے مفتی مضاربت سکینڈل میں پیش پیش رہے ہیں جن میں نامی گرامی نام شامل ہیں۔ اس نوسر بازی میں نام نہاد مفتی صاحبان نے محلہ کے سطح پر امام مسجد حضرات کو ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا مبینہ طور پر ہر ایک ایجنٹ پچیس سے تیس لاکھ روپئے تک عوام سے مضاربت کے نام پروصول کر کے مفتی صاحبان کے پاس جمع کرتے تھے اور اپنا کمیشن حاصل لرتے تھے۔ سود سے پاک اسلامی سرمایہ کاری کے نام پرنام نہاد مفتیوں کے ایک گروپ نے ماہانہ 6 سے 8 فیصد منافع پر مضاربہ اسکیم میں پیسے لگانے کا لالچ دے کر ایک بڑی تعداد کا استحصال کیا ہے،اِن مفتیوں پر بھروسہ کرکے بہت سی خواتین نے اپنے زیورات اور لوگوں نے جائیدادیں اور کاروبار بیچ کر مضاربہ کمپنی میں سرمایہ کاری کی اور اپنی جمع پونجی اِس امید پر اِن حضرات کے حوالے کردی کہ سود سے پاک اچھا منافع کما سکیں گے۔یہ عناصر نفع نقصان کی بنیاد پر عوام کے پیسوں پر کاروبار کرتے تھے، اِن مفتیوں کو عوام نے مضاربہ کے نام پر پیسے دیئے، جن کے پاس کوئی اتھارٹی یا اجازت نامہ نہیں تھا اور یہ بطور مضاربہ کمپنی سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے پاس رجسٹر بھی نہیں تھی۔
مخصوص مکتبہ فکر سے وابستہ مفتی اور علماکے گروپ نے مختلف جعلی کمپنیوں ( البرکہ مارکیٹنگ،الیگزر گروپ وغیرہ ) کا سہارا لے کر مضاربہ اور مشارکہ کے نام پر ہزاروں شہریوں سے کھربوں روپئے ہڑپ کرلیے ہیں،اِن جعلی کمپنیوں نے ملک اور ملک سے باہر مبینہ طور پر ایسے منصوبوں میں کھربوں روپئے کی سرمایہ کاری ظاہر کی ہے، جن کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیںہے،صرف ایک الیگزر نامی کمپنی نے نصف درجن کے قریب منصوبوں میں 7 ارب سے 26 ارب کی سرمایہ کاری کا دعوی کیا تھا،جس میں موٹر سائیکل تیار کرنے والی فیکٹری کے منصوبے پر ایک کھرب 30ارب روپئے دکھائے گئے ،اِس مقصد کیلئے لاہور کے قریب 45 ایکٹر زمین کی خریدی ظاہر کی گئی ،لیکن فیکٹری کہاں تھی کسی کو نہیں معلوم ہوسکا۔اسی طرح الیگزر نے فضائی کمپنی کا منصوبہ بھی شروع کیاجس پر41ارب لگانے اور کمپنی کے فلیٹ میں بوئنگ 737شامل کرنے کا دعوی کیا گیا،مگریہ بوئنگ کس ائیر پورٹ سے اڑتا تھا، کہاں جاتا تھا اور کون لوگ اِس میں سفر کرتے رہے ہیںیہ کوئی نہیں جانتا ۔ گویا سراب، شیخ چلی کا خواب یا خیالی پلائو لوگوں کو کھلائے گئے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ساری مشکوک سرگرمیاں ایک مخصوص مکتبہ فکر اور اِس مکتبہ فکر کی تبلیغی واصلاحی جماعت کا نام استعمال کرکے کی گئیں اوراِن لوگوں نے مضاربت کے نام پر پاکستان کے بڑے بڑے مدارس سے فتاوی بھی لیے ،جنھیں دکھا کر یہ لوگ باآسانی لوگوں کواپنے جال میں پھنسا لیتے تھے،مگرقابل غور پہلو یہ ہے کہ جس وقت یہ کام عروج پر تھا اس وقت اصلاحی تبلیغی جماعت سمیت تمام ذمہ داران خاموش تھے ،لیکن اب بھانڈہ پھوٹنے کے بعدیہ لوگ اِس کاروبار سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں، اسی طرح بڑے بڑے شیخ الحدیث بھی حرام خوری کے عروج میں خوب کھاتے پیتے تھے اور ان کے پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاھی کے مصداق تھے ۔بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اِن جعلی مضاربہ کمپنیوں کے فرنٹ مین کے طور پر جو لوگ سامنے آئے ان کا تعلق بھی اِس مخصوص مکتبہ فکر اوراصلاحی تبلیغی جماعت سے ہے،مثال کے طور پراصلاحی تبلیغی جماعت کے ایک دیرینہ ساتھی مفتی ضیاالحسن جن کا تعلق راولپنڈی کے مشہور و معروف تبلیغی مرکز ذکریا مسجد سے ہے اور جو الیگز ر گروپ کی تخلیق کار، روح رواںاور ابتدائی طور پر مضاربہ کار کے طور پر سامنے آنے والے مفتی اسامہ ضیااور مفتی احسان ضیاکے والد ہیں،جبکہ ناصر لالیکا مفتی اسامہ ضیااور مفتی احسان ضیاکا برادر نسبتی ہے،اِن حضرت نے اسلام آباد،راولپنڈی کے علمااور مدارس پر توجہ مرکوز کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مفتی اسامہ ضیانے اپنے ہم مسلک نوعمر مفتیوں،مدارس کے اساتذہ اور خطباکو مڈل مین بنا کران لوگوں تک رسائی حاصل کرلی یہ جواپنا سرمایہ سودی کاموں میں تو نہیں لگانا چاہتے تھے مگر اپنے سرمائے سے غیر معمولی منافع حاصل کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔
نام نہاد مفتیوں کے اِس گروپ نے بدنیتی کے تحت عوام سے کاروبار کی نوعیت اور بطور مضاربہ کمپنی اپنی رجسٹریشن کا معاملہ بھی چھپایا اور عوام سے بھاری رقوم وصول کیں اور انہیںجعلی کمپنیوںکے نام سے رسیدیں جاری کیں، مفتی احسان کی کمپنی کے علاوہ بھی دیگر دو کمپنیاں اسی طرح کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں،اِس حوالے سے ایک متاثرہ شخص کا کہنا ہے کہ اس نے مفتی عثمان نامی شخص کی کمپنی میں 2 کروڑ روپے لگائے جو مفتی عثمان نے ربا فری (سود سے پاک) کاروبار کے نام پر حاصل کئے تھے،اِس متاثرہ شخص کے مطابق کئی اعلی علمااور مذہبی گروپس کا نام بھی اِس کاروبار میں لیا جاتا ہے۔
مانسہرہ کے مفتی صاحبان اس میں پیش پیش ہیں کچھ بزرگ شرماتے بھی ہیں نہ سامنے آتے ہیں اور نہ کھل کر اس کی مخالفت کرتے ہیںصرف مفتی احسان اکیلا شخص ہے جو مضاربہ متاثرین کے 220 ارب روپے لوٹ کر چلتا بنا،جبکہ اِس اسکینڈل میں شامل چند دوسرے گروپوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور متاثرین سے سود سے پاک جعلی منافع بخش سکیم کے نام پر 500 ارب سے زائد رقم لوٹی ہے۔دوسری جانب نیب کو دیگر مضاربہ گروپوں الیگزر،میزان اور البرکہ کے خلاف ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اِن گروپوں نے ایک افغان ہیروں کے ا سمگلر کے ساتھ مشترکہ کاروبار پر تمام پیسہ لگا رکھا ہے،ہیروں کے اِس افغان سمگلر کا ایک ساتھی تھائی لینڈ کا رہنے والا ہے،مضاربہ گروپ کے چیئرمین مولانا ایوبی اور الیگزر گروپ کے ایک اور اہم کردار مفتی ابراہیم اہم کرداروں میں سے ہیں ان کردار وں میں کچھ اہم کرداروں کا تعلق ہزارہ اور خاص کر مانسہرہ سے بھی ہے۔
ایسے لوگوں تک رسائی کیلئے مفتی اسامہ اور ان جیسے لوگوں نے دینی طبقے سے وابستہ حلقہ اثر رکھنے والوں لوگوں کو بطور ایجنٹ استعمال کیا،اِن میں اسلام آباد راولپنڈی کے علاوہ دوسرے شہروں خاص کر مانسہرہ اور بٹگرام کے بیسیوں خطیب،آئمہ مساجد اور مدارس کے اساتذہ بھی شامل ہیں،اِس طرح یہ لوگ محض چند برسوں کے دوران کھربوں روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے اور لوگوں نے اِ ن کے جھانسے اورپر کشش منافع کے لالچ میں اپنی زمینیں،زیورات،رہائشی مکانات،مال مویشی فروخت کر کے تمام جمع پونجی اِن مفتیوں کے حوالے کردی،اسی طرح ہزارہ ڈویڑن کے چھ اضلاع میں فراڈ اور نوسربازی میں ملوث مفتیوں اور قاریوں کا تعلق بھی اسی مکتبہ فکر ہے جن میں مولانا سید غلام نبی شاہ صاحب کے فرزند شاہ عبدالقادر اور ان کے پوتے اور نواسے ملوث رہے ہیں حالانکہ بذات خود مولانا سید غلام بنی شاہ صاحب ایک بزرگ ہستی ہیں اور ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر ان کے بیٹے اور پوتوں اور نواسوں نے شاہ صاحب کے مرتبے اور نام کا بھی لحاظ نہیں کیا،اِس کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصا پنجاب اور سرحد کے بڑے شہروں میں جعلی مضاربہ کاروبار کرنے والی کمپنی کیپ ایبل ایشیا کے کرتا دھرتاوں میں بھی اِس جماعت سے وابستہ اہم لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں،یوں ضلع اٹک کی 5 تحصیلوں سے 200 ارب روپئے اکٹھے کرنے والے مفتی بشیر،مفتی عبدالرافع،مفتی اسامہ،مفتی احسان ضیااور ناصر لالیکا سمیت اِس کاروبار سے منسلک 95 فی صد افراد کا تعلق اسی مکتبہ فکر سے ہے،جبکہ ضلع دیر لوئر کی عوام بھی تبلیغی جماعت سے وابستہ کچھ افراد کے ملوث ہونے کی وجہ سے اپنی تمام جمع پونجی اِس ان دیکھے کاروبار میں جھونک کر اپنی زندگی برباد کرچکے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے مضاربہ اسکینڈل کے مرکزی کردار مفتی احسان کے ساتھ وابستہ بعض بڑی بڑی شخصیات اورمفیان کرام کے نام بھی سامنے آئے ہیں،جس میں خاص طور پر جامعہ بنوریہ کراچی کے ریئس مفتی نعیم،ان کے بیٹوں،بھائی اور مفتی عبداللہ شوکت کے ساتھ کئی مشہور علماکرام شامل ہیں،گو مفتی نعیم اور جامعہ بنوریہ اخبارات میں اشتہارات وغیرہ کے ذریعے اِس اسکینڈل سے اپنی برات کا اعلان کرچکے ہیں،جبکہ کچھ مدرسوں اور دارالعلوم کی جانب سے بھی وضاحتیں سامنے آئی ہیں، تاہم اِس کے باوجود بعض افراد کا دعوی ہے کہ ان کے پاس اِن مفتیان کرام کی جانب سے دیئے گئے فتوے اور ان سے ہونے والی گفتگو کی ویڈیو موجود ہے،چنانچہ اِس تناظر میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس حوالے سے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے تاکہ اصل حقائق قوم کے سامنے آسکیں۔
اور اس مزموم دھندے میں ملوث تمام کرداروں کو بے نقاب کرکے کڑی سے کڑی سزا دی جائے، تاکہ آئندہ کوئی مذہب کے نام پر عوام کو لوٹ سکے اورنہ ہی گم راہ کرسکے ان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ محلہ کے سطح پر مفتیوں کے ایجنٹوں کو بھی گرفتارکر کے کیفردار تک پہنچایا جائے!!!۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *