پاکستان میں سیاست دانوں کو جوتے مارنے کی روایت چل پری ہے پے درپے سیاست دانوں پر جوتوں سے حملے تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور آنے والے الیکشن مہم کے دوران سیاست دانوں کو مذید جوتے کھانے کا امکان ہے ۔اگر چہ سیاست دانوں کی جوتے کھانے کی روایت پرانی ہیںمگر ماضی میں شاز و نادر ایسے واقعات رونما ہوتے تھے مگر پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے ایسے واقعات میں شدت آگئی ہے اور تواتر کے ساتھ اس قسم کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اور لگتا ایسا ہے کہ آنے والے الیکش مہم میں ایسے واقعات میںمذید شدت پیدا ہو گی لہٰذا سیاست دانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
آخر کیا وجہ کہ لوگوں کا پارہ ایک دم چڑھ گیا ہے اور انہوں نے سیاست دانوں کے خلاف جوتیاں اٹھا لی ہیں؟ اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو جوتے پھینکنے کی روایت ایک عمل کا رد عمل ہے اور سیاست دانوں کے خلاف لوگوں کی نفرت کی علامت ہیچونکہ سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور میڈیا اسے براہ راست دیکھا تا اس کا اثر ورکروں پر بھی پڑتا ہے اور شدید غصہ کو وہ جوتا اور سیاہی پھینکنے کی صورت میں نکاالتے ہیںاور سیاہی پھینک کر ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ہمیں معلوم نہیں کسی کو جاتا مارنا اور یا سیاہی پھینکنے کی قانون میں کیا سزا ہے مگر جوتا پھینکنے والے کو موقع پر ہی بڑی سزا مل جاتی ہے جب اسے اجتماعی طور پر درگت بنایا جاتا ہے ۔
جب سینٹ کے الیکشن ہورہے تو اس دوران میرے چھوٹے بیٹے عبید اللہ نے معصومانہ سوال کیا کہ یہ سینٹ کیا ہے؟ جب نے ان کو بتایا کہ سینٹ قانون سازی کا اعلیٰ ترین ہے جیسے قومی اور صوبائی اسمبلیاں تو اس نے کہا اچھا اچھا وہ جگہ جہاں لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں؟۔اس سے آپ اندازہ لگائے سیاست دانوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے عوام میں ان کی کیا توقیر و تعارف ہے۔ سیاست دانوں میں عدم برداشت معدوم ہو رہا ہے تو رد عمل میں عوام کی جانب سے عدم براداشت کے باعث سیاستدانوں کو جوتے کھانے پڑ جاتے ہیں۔
سیاست دانوں پر جوتے سے حملہ نا صرف پا کستان بلکہ دنیا بھر میں ہوتا ہے، ایسے ہی واقعات عالمی منظر نامے پر متعدد بار دیکھنے میں آئیںلیکن پاکستان میں اس روایت کا دوبارہ احیا ہوگیا ہے۔اور ملک میںقومی رہنمائوں اور وفاقی وزراء پر جوتے اور سیاہی سے حملے کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔سیاست دانوں پر حملوںکے واقعات میں گذشتہ عرصہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سماجی و سیاسی کارکن ہوں یا دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان ہوں ‘ کسی نہ کسی موقع پر اپنے مخالف سیاسی لیڈر اور سیاست دان پر حملے کرنے لگے ہیں۔ یہ حملے سیاہی پھینک کر کئے جا رہے ہیں یا جوتے پھینکے جا رہے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ میں ایک اسی مدرسہ کے ایک طالب علم نے سابق وزیر اعظمر پر جوتے سے حملہ کیا نے یہ شخص نواز شریف کی پالیسیوں اور ان کے کاموں سے خوش نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے میاں نواز شریف پر جملے کستے ہوئے یہ حملہ کیا تھا۔جس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم نوازشریف جوتے کا نشانہ بن گئے۔یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب سابق وزیر اعظم نواز شریف جب جامعہ نعیمیہ میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے کہ اس دوران ایک شخص نے ان پر جوتا دے مارا جس کے باعث مجمعے میں بھگدڑ مچ گئی تاہم ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔اس سے پہلے وزیر خارجہ خواجہ آصف سیالکوٹ میں (ن) لیگ کے ورکرز کنونشن سے خطاب کے لیے اسٹیج پر پہنچے ہی تھے ایک شخص نے سیاہی ان کی جانب پھینکی جس کے بعد ان کا چہرہ اور لباس سیاہ ہوگیا۔
اوراس سے قبل وزیر داخلہ احسن اقبال نارو وال میں مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان نے ان کی جانب جوتا اچھال دیا جو ان کے ہاتھ میں جالگا۔جبکہ ماضی میں سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید شامل ہیں جبکہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو سندھ اسمبلی کے اطراف میں نشانہ بنایا گیا اور سابق پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر انٹرویو کے دوران جوتا اچھالا گیا تھا۔ اور جب یہ سطوریں لکھی جارہی ہیں تو گجرات میں عمران خان پر جوتے سے حملہ کیا گیا جسمیں وہ خود تو بچ گئے مگر جوتا علیم خان کوجا لگا۔جبکہ جوتا مار بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
بین الاقوامی سطح پر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر 2008 میں عراق میں ایک تقریب کے دوران صحافی کی جانب سے جوتا پھینکا گیا جس سے وہ بال بال بچ گئے تھے جبکہ سابق آسٹریلوی وزیر اعظم جان ہاروڈ پر اس وقت ایک شخص نے ان کی جانب جوتا اچھالا جب وہ نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ جبکہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ٹونی بلیئر کو بھی جوتے پڑ چکے ہیںاورسابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پر لاس ایگاس میں تقریب کے دوران ایک خاتون نے جوتے سے حملہ کیا تھا۔
بات ہورہی ہو جوتوں کی اور بھارت کا تذکرہ نہ ہو سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، بھارتی سابق وزیر داخلہ چدم برم، عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجر یوال، مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ اور صوبہ بہار میں چیف منسٹر نتیش کمار پر بھی جوتوں کے وار ہو چکے ہیں۔
فاسد نظام کو چلانے والے بات جمہوریت کی کرتے ہیں مگر سیاسی اختلاف رائے کو کوئی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیاسی اختلاف رائے اگر تعمیری انداز میں ہو تو اس سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ کسی کو سدھارا جاسکتا ہے اور عوامی زندگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اسی بنا پر اختلاف کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اختلاف کو کوئی بھی برداشت کرنے تیار نظر نہیں اور سب ہی اپنے جذبات کا اظہار گالیوں اور بے ڈھنگے انداز میںاظہار کرنے لگے ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔
آج جس طرح سے سیاست دانوں کو جوتوں حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ واقعات اخلاقی اورسیاسی اعتبار سے غلط ہیں مگر یہ عوام کی مایوسی اور ناکامیوں کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
چونکہ سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں نکالتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو الناس علیٰ دین ملوکھم کے اصول کے مطابق عوام کے اخلاق بھی بگڑ رہے ہیںاور وہ ناکامی اور مایوسی کا غصہ سیاست دانوں کو جوتوں کا نشانہ بناتے ہوئے نکال رہے ہیں۔ اس کو مکافات عمل بھی کہا جا سکتا ہے لیکن بھر حال یہ ایک المیہ ہے اور کسی بھی صورت سیاست دانوں کو جوتے مارنے کی روایت کو درست نہیں کہا جاسکتا۔ سیاہی پھینک کر کسی کے چہرے کو کالا کرنا یا کسی پر جوتے برسانا ایک مستحسن اقدام نہیں اور قابل مذمت ہے مگر سیاست دانوں کو بھی اپنے طرز عمل کاجائزہ لینا چائیے کہ آخر ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ آخر ان کو جوتیاں کیوں ماری جارہی ہیں اور جوتے اور سیاہی پھینکنے کی روایت کا احیا اور اس میں شدت و اضافہ کے اسباب کیا ہیں ؟کہیں یہ وہ اس فاسد نظام کے اثرات تو نہیں جس سے ان کے چہرے کالک ذدہ ہو رہے ہیں اور ان کو جوتے پڑ رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ان کو جوتوں کے ہار پہنا کر رخصت کر دیا جائے۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *