ہر سال 13 فروری کو عظیم شاعر فیض احمد فیض کا یوم ولادت منایا جاتا ہے اور اس مناسبت سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ان کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور ان کی خدمات کو یاد رکھا جاتا ہے۔ فیض احمد فیض ایک انقلابی شاعرتھے اور دل میں درد رکھتے تھے اور معاشرتی جبر کے خلاف خوب لکھتے تھے گویا ظلم کے خلاف مزاحمت ان کی خمیر میں شامل تھا۔
احمد فراز نے فیض احمد فیض کے بارے میں لکھا ہے
قلم بدست ہوں حیراں ہوں کیا لکھوں
میں تیری بات دنیا کا تذکرہ کیا لکھوں
لکھوں کہ تو نے محبت کی روشنی لکھی
ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں
فیض احمد فیض ایک انقلابی بھی تھے اور ایک صوفی بھی اور بلا شبہ وہ ایک بڑے شاعر تھے علامہ اقبال اور ان کا موازنہ ہوتا ہے اور ان دو نوں کی شاعری کو ایک ترازو میں تولا جاتا ہے اوراور بلآخر یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ دونوں شعراء کا آھنگ الگ الگ ہے اقبال کی جذباتی شاعری ہے اور فیض کی مزاحمتی شاعری ہے بھر حال دونوں قوم کا سرمایہ ہیں گزشتہ دن یوم فیض منایا گیا اور ان کی شاعری اور اور شخصیت کے حوالے سے مباحثے اور مزاکرے ہوئے اور آج کے نسل کو ان سے آگاہی ہوئی انہوںنے انسان کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اپنی شاعری میں امسان کی دکھوں کیا نشاندہی کی اگر چہ ان کو عشق و محبت سء بھی لگائو تھا مگر انہوںنے زلفوں کی درازی کے دعائوں پر مبنی شاعری سے گریز کرتے ہوئے انسان کے غموں اور نفرتوں کو مٹانے کی کوشش کی اور اس راستے میں رجعت پسند ذہنیت نے ان کے خلاف محاذ قائم کیا اور ان کو نشانے پر رکھا
کہ رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
فیض ایک دیندار شاعر تھے اور ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ د ین دنیا میں عوامی فلاح سے انقلاب آیا اوربڑا نقلاب اسلام نے پیدا کیا اس سے بڑا انقلاب دیکھنے میں نہیں آ یا ہے دین ایک چیز ہے اور دین کے جو ا جارہ دار بن جاتے ہیں وہ دوسری جس نظام میں مختلف قسم کے طبقات ہوتے ہیں اور ہر طبقے کا اپنا مفاد ہوتا ہے اس میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ دین عوام کی بھلائی کے لئے اور خلق خدا کی بھلائی کیلئے آیا ہے اس کی ترغیب دی جا رہی ہے یا نہیں؟ ظلم، جبر، تشدد،کی حمایت بھی دین میں جائز نہیں دین کے صحیح معنی بھی خلق خدا کی بہتری اور بہبود کے لئے ہے ان کا کہنا ہے
بے فکرے دھن دولت والے
یہ آخر کیوں خوش رہتے ہیں
ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ فیض احمد فیض روسی انقلاب سے متاثر تھے لیکن اس کا مطلب مذہب سے بیزار ی ہرگز نہیں تھی وہ انقلابی اور صوفی بھی تھے روس کے ایک شاعرحمزہ راؤف اُن کے دوست تھے فیض احمد فیض ان کی والدہ کے لئے قران حکیم کا تحفہ لے کر گئے تھے روسی انقلاب اور مذہب کے تعلق کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں ان کے بارے میں فیض کا نظریہ یہ ہے کہ انقلاب روس کے ابتدائی سالوں میں کلیسا زارشاہی،زار پرستوں،نوابوں اور مقامی بادشاہوں کے ساتھ عوام کی براہ راست جنگ تھی اس وجہ سے شرو ع شروع میں اس مذہب اور دین کے خلاف جوزار شاہی کا حلیف بن گیا تھا تحریک چلی تھی لیکن اب چونکہ وہ دور گزر گیاوہاں پوری پوری مذہبی آذادی ہے فیض احمد فیض ترقی پسند تھے لیکن ترقی پسند کا مطلب نہ دین سے بیزاری ہے اور نہ عشقیہ شاعری کی مخالفت ہے مذہب کے ساتھ ان کا تعلق تو بچپن سے تھا سات سال کی عمر میں وہ اپنے والد کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں اور نماز کے بعد وہ معمول کے مطابق درس بھی سُنتے تھے ور ایم اے کے دوران لاہور کے کی ایک درسگاہ سے دینی کورس بھی انہوں نے مکمل کیا۔ وہ فرقہ واریت کے سخت خلاف تھے اور انسان دوست علماء سے بے حد متاثر تھے اس لئے ان کے رجحانات شریعت اور طریقت کے طرف مائل تھے ،انہوں نے انسان دوستی کو اپنی شاعری کا موضوع بناکر ہمیشہ ظاہر پرستی ،تعصب ،نفرت اور ظلم وجبر کے خلاف جدوجہد کی اور مزدور کسان اور عام آدمی کے تصور کو ابھارا
یہ دمکتے ہوئے شہروں کی فراو اں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے
یہ حسین کھیت پھٹا پڑتا ہے جو بن جن کا
کس لئے ان میں فقط بھوک ا گا کرتی ہے
چونکہ شریعت ،طریقیت ،اور سیاست ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں سیاسی حوالے سے ان کی جدوجہد قیدوبندسے عبارت سے ہے جہاںبھی ظلم ہوا انہوں نے انہوں نے اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا وطن میں یا وطن سے باہر فیض کی مزاحمت ظلم کے خلاف تھی وہ لاہور میں رہے یا بیروت میں اور یا ماسکومیں ہر جگہ انہوں نے ظالم اور مظلوم کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنا کردار ادا کیا وہ کہتے کہ ترقی پسند شاعر کوشش کرتا ہے کمی جو بھی حقیقتیں ہیں دیانت داری سے اس کو پیش کیا جائے اس میں ہر طرح کے تجربے کی آذادی ہے اس میں ذاتی عشق بھی شامل ہے اس میں سیاسی مسلک بھی شامل ہے سیاسی جدوجہد بھی شامل ہے اس میں دھول ،دھوپ،چاندنی، ذمیں ، آسمان،بھوک ،مفلسی ،غرض سب کچھ شامل ہے ایک موقع پر ان سے پوچھا گیا ,,مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگی،،لکھ کر آپ نے عاشقی کو شاعری سے نکال دیا ہے تو انہوں نے شرماتے ہوئے کہا یہ کہنا بھی تو ایک طرح شاعری کا اعتراف ہے ان کی رومانوی بطور نمونہ ملاحظہ ہو
آج پھر سے دل آراء کی وہی دھج ہوگی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں، وہی کا جل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا دہ غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تصویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔