’’کورونا وائرس‘‘ نے معمولات حیات کو اتھل پتھل کردیا ہے اور ساری دنیا پر بجلی گرادی ہے،عوام خوف و دہشت کا شکار ہیں اور حکمرانوں کی نیندیں غائب ہوچکی ہیں۔ دنیا بھر میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ ہے۔ تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ہے۔ لوگوں کے اجتماع اور سماجی روابط پر پابندی لگادی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ ’’کورونا‘‘ کوئی وائرس نہیں بلکہ موت کا فرشتہ ہے۔
معمولات زندگی ٹھپ اور کاروبار بنداور سڑکوں پر ہو کا عالم، بازار خالی، ٹریفک معطل، ریلوے سٹیشنوں میںویرانی اورہوائی اڈوں پر خاموشی کا راج نظر آتا ہے سارے عالم پر موت کا سایہ طاری ہے۔ حکمران بے بس اور ماہرین طب لاچار نظر آتے ہیں اور ہر طرف مایوسی کے ڈیرے ہیں۔ پہلے اس آفت نے چین میں پنجے گاڑے مگر وہاں کے نظام نے اس پر قابو پایا۔ اس کے بعد ایران اور اٹلی میں یہ قہر نازل ہوا اور اب دنیا میں سب سے زیادہ امریکہ پر اس وقت کورونا کا قہر عروج پر ہے اورکورونا مریضوں کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ کورونا وائرس نے دنیا کے نظاموں درہم برہم کر دیاہے اور دنیا کی ہر ترقی اور ہر خوشی بے معنی ہوگئی ہے۔ ساری چمک دمک اور رعنائیاں اور مال و دولت بے کار نظر آتے ہیں۔ اناج، خوراک بشمول آٹے اور روٹی کی قلت ہے۔
بے چارے غریب پر دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر وہ کورونا وائرس سے بچ گیا تو بھوک سے تو مر ہی جائے گا۔ ایک طرف تو بیماری کی پریشانی ہے اور دوسری طرف بھوک کا خوف سرمایہ دار زخیرے بنا رہے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں اورغریب کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ لوگوں میں مایوسی ہے اور میڈیا بھی خوب خوف پھیلا رہا ہے اگر کورونا وائرس سے بچ گئے تو آخر میں بھوک سے مر جائیں گے۔ کروڑوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر دھاڑی دار ہیں روز کماتے اور کھاتے ہیں۔ لاک ڈائون نے ان کی دھاڑی کی آمدنی کو بھی لاک ڈائون میں بدل دیا ہے۔ حکومت نے امداد کے پیکیج کا اعلان تو کیا ہے لیکن عمل در آمد کیسے اور کب؟ عوام منتظر! اس دوران عوام اور سفید پوشوں کا عزت نفس بھی محروم ہو رہا ہے۔یہ وقت ہے کہ مخیر حضرات آگے بڑھیں اور لوگوں کی مدد کریں۔
لاک ڈائون، سفر کی پابندی، یہ اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ بیشتر دفاتر کی تالہ بندی ہے۔ اور محنت و مزدوری اور روزی روٹی اور کام دھندے سب بند ہیں اور دوبارہ معمول پر آنے کا امکان تب ہی ہوگا جب آپ اور ہم زندہ بچیں گے۔ فی الوقت اس کا ایک ہی حل ہے کہ صرف گھروں تک محدود رہیںاور تنہائی اختیار کریں اور ایک دوسرے کے قرب اور اختلاط سے اجتناب کریں۔ یہ تنہائی دوسری زندگی کا پیغام لائے گی اور اگر ایسا نہ کیا توکورونا وائرس ہر گھر کے دروازے پر دستک دے گی۔ کیوں کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ ایک سے دوسرے کو لگتا ہے۔ اور پھر سینکڑوں و ہزاروں اور لاکھوں کو اپنی گرفت میں دبوچ لیتا ہے۔ اس میں محض احتیاط ہی علاج ہے۔
اس مصیبت کے وقت حکومت پاکستان نے بھی عوام کے لیے ریلیف پیکچ کا اعلان کر رکھا ہے اور کچھ اقدامات بھی کیئے جارہے ہیں مگر اس وقت بحیثیت قوم ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم غریب اور مجبور عوام کی دل کھول کر مدد کریں ۔یہ ہماری اکہتر سالہ تاریخ کا بڑا بحران ہے من حیث القوم ہم اس مصیبت سے نمٹ سکتے ہیں، ایک قوم بن کر اورقومی اداروں کے ساتھ ملکر اس بحران کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور میڈیا کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ مایوسی نہ پھیلائیںاپنا مثبت کردار ادا کرے اور عوام کو درست معلومات پہنچائیں اور ریٹنگ کے چکر سے گریز کرے ۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ کچھ سیاسی عناصر اس مصیبت کے وقت بھی محض سیاسی بیانات دینے میں مصروف ہیںاور اس عالمی بحران کو ملکی بحران ثابت کرنے کے درپے ہیں سیاسی مفاد اٹھانے کی کوششوںمیں مصروف ہیں اور اسی طرح تاجروں نے بھی لوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے ایک طرف لوگ بے روزگار ہیں اور دوسری طرف زخیرہ اندوزوں نے اشیائے صرف زخیرہ کیا ہوا ہے اور دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں اور اس دوران متعلقہ ادارے بے بس نظر آتے ہیں ۔ موجودہ صورت حال میں جو عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے گا وہ یقیناً قومی مجرم اور ملک سے غداری کا مرتکب ہوگا۔ حکومت کی زمہ داری ہے کہ قوم میں مایوسی پھیلانے والوں اور مصنوعی مہنگائی اور اشیائے خوردنی کا زخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کا قلع قمع کریں اور ان کیلئے سنگین سزائیں تجویز کر کے ان کو منطقی انجام تک پہنچائے۔
