فلسطین جل رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ صیہونیوں کی بمباری سے ایک طرف مسجد اقصیٰ کے احاطے میں آگ بھڑک اٹھی اور دوسری طرف شعلے آسمان میں بلند ہوتے شعلے دیکھ کر یہودی جشن منا رہے پوری دنیا دیکھتی ہے۔گزشتہ کئی روز سے اسرائیلی افواج کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں نمازیوں پر مسلسل کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے جس کے باعث صورتحال کشیدہ ہے۔فلسطین کے صحت حکام کے مطابق اسرائیل فضائی حملوں میں بچوں سمیت 22 افراد شہید ہوئے اور تین سو سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں اور سینکڑوں فلسطینیوں کو یہودیوں نے گرفتار بھی کیا ہے جن میں خوااتین بھی شامل ہیں۔ اسکے بعد غزہ سے حماس نے اسرائیلی علاقے میں متعدد راکٹ داغے گئے جس کے بعد پیر کی شب اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فضائی حملے کیے گئے۔
اسرائیل اور حماس کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے فریقین سے پْرامن رہنے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے کشیدگی کو کم کریں۔ پاکستانی وزیر خار جہ جناب شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ پر پاکستان کا موقف واضح ہے ،انہوں نے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کی مذمت کی اور کہا کہ مسئلہ فلسطین پر امہ کو متحد ہونا ہوگا۔
مقبوضہ بیت المقدس کی صورتحال پر غور کے لئے سلامتی کونسل کا بھی ہنگامی اجلاس ہوا جس میں شرکاء نے فلسطین کاز کیلئے اپنی مکمل حمایت کا اعادہ کیا اورعالمی برادری فلسطینی عوام کے تحفظ کیلئے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جو صرف لفظی بیانات ہیں اور رٹے رٹائے جملے جو ہمیشہ سننے کو ملتے ہیں۔جبکہ امریکہ نے حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کی مذمت کی ہے جو ظلم کے خلاف دوہرا معیار ہے۔
حیرت ہے کہ ایک بڑے اسلامی ملک کے سربراہ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ امریکا اور مغرب اسلامی دنیا کے دشمن نہیں ہیں، حالانکہ فلسطین سے لیکر شام تک امریکہ نے مسلمانوںکے خون سے جو ہولی کھیلی ہے تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
اوراسلامی سربراہی کانفرنس کا قیام بھی صرف اور صرف فلسطین کے مسئلہ پر عمل میں آیا تھا، مگریہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ اب تک دنیا کے 57ملکوں کی نمایندگی کے باوجود اس سلسلے میں کسی قسم کا موثر قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔اوریہ بیان فلسطین کے بے گناہ مسلمانوںکے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہے۔ فلسطین دنیا کا مظلوم ترین ملک ہے اور فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی جبر اور استبداد کا سامنا ہے مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور چن چن کر مسلمانوں کو گولی کے نشانے پر رکھ کر قتل کیا جارہا ہے اور دنیا خاموش ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور اسلامی امۃ کو اپنے مفادات عزیز ہیں اس دوران فلسطین سے ایک بار پھر یہ صدا بلند ہوئی ہے کہ میڈیا عالمی فورمز پر ہماری مظلومیت کی آواز اٹھائے فلسطینی نیشنل کونسل کے رکن زھیر رشاد صندوقہ نے کہا ہے کہ فلسطین تیل کے ذخائر سے مالامال ہے امریکہ اسرائیل کی حمایت کر کے فلسطینیوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میںظلم ہورہا ہے مگر اسلامی دنیا خاموش ہے۔ صرف مذمتی بیانات مطلوم فلسطینیوں کی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
امریکہ نے سلامتی کونسل میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کی مذمت میں پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت جو غاصب صیہونی حکومت کی بھرپور حمایت کی عکاسی کرتی ہے۔ بلکہ امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت صرف ان ہی مسائل تک محدود نہیں ہے بلکہ امریکہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر میں امریکہ براہ راست اس کی مدد کر تارہا ہے یہ اس کا ثبوت ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے غیرانسانی اقدامات میں شریک جرم ہے۔
امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی قرارداد کو پاس ہونے سے روکا ہے۔ اس بنا پر امریکہ نے اپنے غیرمنصفانہ اختیارات یعنی ویٹو کا استعمال کر کے صیہونی حکومت کے خلاف سینکڑوں قراردادوں کی منظوری کو روکا ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے عالمی کوششوں کو بارہا ناکامی سے دوچار کیا ہے۔ جو بہرحال بیدار ضمیر رکھنے والوں اور آزاد فکر انسانوں اور قوموں کیلیے لمحہ فکریہ ہے۔
البتہ ایشیائی ممالک کا فلسطین کے تنازع حل کرنے پر زور دے رہے ہیںجس میں روس اور چائنا جیسے ممالک شامل ہیںاس سے قبل ایشیائی ممالک میں فیصلے کی باگ ڈور ہمیشہ بڑی طاقتوں اور سامراجی ممالک کے ہاتھوں میں تھی مگر اب آہستہ آہستہ یہ ممالک اپنی سلامتی او رخود مختاری کے سلسلے میں آزادانہ اندرونی و بیرونی پالیسی اپنا رہے ہیں اور دوستی و تعلقات کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں اگر ایشیائی ممالک باہمی اختلافات اور تنازعات کو حل کرلیں تو متحد ہوکر اپنے وسائل اور افرادی قوت کے بل بوتے پر ایک نئی طاقت کا مرکز بن سکتے ہیں اور ایشیا ٹک فیڈریشن کا خواب پورا ہوسکتا ہے آخر یورپین یونین بن سکتا ہے تو ایشیا ٹک فیڈریشن کیوں نہیں؟اس وقت ایشیا میں فلسطین ایسا مسئلہ ہے جو طویل عرصہ سے حل طلب ہے اور اس کی وجہ سے خطے کا امن مسلسل خطرے کی زد میں رہتا ہے۔س سلسلے میں مسلم ممالک کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے یہ امر حیرت انگیز ہے کہ عرب ممالک دور دراز ممالک میں جہادی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں مگر مسئلہ فلسطین کو انہوں نے مسلسل نظر انداز کیا ہے مظلوم فلسطینیوں کی آواز ان کو سنائی نہیں دے رہی ہے تیرہ سال تک امریکہ کے چھتری کے نیچے افغانستان میں جہاد ہوا مگر اس دوران مسئلہ فلسطین سے غفلت برتی گئی اور جس کسی نے بھی امریکی سامراج اور صیہونیت کے خلاف آواز بلند کی میڈیا نے ان کے خلاف خوب پروپگنڈہ کیا اور ان کو بدنام کیا اور امریکی سامراج کو یہ موقع دیا کہ وہ انہیں کچل دے جس کی مثال عراق اور لیبیا ہیں جہاں صدام حسین اور معمر قذافی کو شہید کیا گیا اور ان کی حکومتوں کو گراکر وہاں کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے اور شام کے مسئلہ کے موقع پر کچھ اسلامی ممالک سے مطالبہ سامنے آیا کہ امریکہ شام کے اسلام پسند باغیوں کی مدد کرے خرچہ ہم دینگے ۔ کیا امریکہ کو جنگ کا کرچہ دینے والوں نے کبھی مظلوم فلسطینیوں کی بابت بھی امریکہ سے بات کی ہے؟ امریکہ کے مفادات کیلئے عالم اسلام نے جنگیں لڑی اور ان جنگوں کو مقدس عنوان دے کر خرچہ بھی برداشت کیا مگر فلسطین کے مسئلہ پر انہوںنے مجرمانہ غفلت برتی ہوئی ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سامراجی چکر میں آکر مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالا گیا فی الوقت بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کہاں ہے؟ کیا دنیا کو اس کی فکر بھی ہے؟ میڈیا جو دنیا کی مئوثر قوت ہے اسے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی آواز اٹھائے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اپنے ذمہ داریاں پوری کریں!!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *