اردگان کی حماقتیں۔۔۔
سن 2013 میں مسلم ترکی ملک کی کل ملکی پیداوار ایک ٹریلین سو ملین ڈالر تھی جو کہ مشرق وسطی کی مضبوط ترین تین اقتصادی قوتوں یعنی ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مجموعی پیداوار کے برابر ہے اردن شام اور لبنان جیسے ملکوں کا تو شمار ہی نہیں ہے،اردگان نے سالانہ تقریبا 10 پوائنٹس کے حساب سے اپنے ملک کی معیشت کو 111 نمبر سے 16 نمبر پر پہنچا دیا جس کا مطلب ہے کہ ترکی دنیا کی 20 بڑی طاقتوں (G-20) کے کلب میں شامل ہوگیا ہے

اردگان نے ترکی کو دنیا کی مضبوط ترین اقتصادی اور سیاسی قوت بنانے کے لیے سن 2023 کا ہدف طے کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ترکی اس عزم میں کامیاب ہوتا ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گااستنبول ایئرپورٹ یورپ کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہے ،اس میں یومیہ 1260 پروازیں آتی ہیں مقامی ایئر پورٹ کی صبح کی 630 فلائٹس اس کے علاوہ ہیں ترک ایئر لائن مسلسل تین سال سے دنیا کے بہترین فضائی سروس ہونے کا اعزاز حاصل کر رہی ہے 10 سالوں کے دوران ترکی نے جنگلات اور پھل دار درختوں کی شکل میں 2 بلین 770 ملین درخت لگائے ہیں۔اپنے اس دور حکومت میں ترکی نے پہلا بکتر بند ٹینک، پہلا ایئر کرافٹ، پہلا ڈرون اور پہلا سیٹلائٹ بنایا ہے یہ سیٹلائٹ عسکری اور بہت سے دیگر امور سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اردگان نے 10 سالوں کے دوران 125 نئی یونیورسٹیاں، 189 سکول، 510 ہسپتال اور 1 لاکھ 69 ہزار نئی کلاسیں بنوائیں تاکہ طلبہ کی تعداد فی کلاس 21 سے زیادہ نا ہو گذشتہ مالی بحران کے دوران جب امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسیں بڑھا دی تھیں ان دنوں میں بھی اردگان نے حکم نامہ جاری کیا کہ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم مفت ہوگی اور سارا خرچہ حکومت برداشت کرے گی 10 سال پہلے ترکی میں فی فرد آمدن 3500 ڈالر سالانہ تھی جو 2013 میں بڑھ کر 11 ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچ۔گئی تھی ۔یہ شرح فرانس کی فی فرد شرح آمدن سے زیادہ ہے ۔اس دوران ترکی کرنسی کی قیمت میں 30 گنا اضافہ ہوا۔

ترکی کی بھرپور کوشش ہے کہ سن 2023 تک علمی تحقیقات کے لیے 3 لاکھ سکالرز تیار کیے جائیں اہم ترین سیاسی کامیابیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اردگان نے قبرص کے دونوں حصوں میں امن قائم کیا اور کرد کارکنوں کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کے ذریعے خون خرابے کو روکا،آرمینیا کے ساتھ مسائل کو سلجھایا یہ وہ مسائل ہیں جن کی فائلیں گذشتہ 9 دہائیوں سے رکی ہوئی تھیں ،ترکی میں تنخواہوں اور اجرتوں میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے ،مزدور کی کم از کم تنخواہ 340 لیرہ سے بڑھ کر 957 لیرہ ہوگئی ہے ،

کام کی تلاش میں پھرنے والوں کی شرح 38 فیصد سے گھٹ کر 2 فیصد پر آگئی ہے ترکی میں تعلیم اور صحت کا بجٹ دفاع کے بجٹ سے زیادہ ہے ،یہاں استاد کی تنخواہ ڈاکٹر کے برابر ہے ،مسلم ترکی میں 35 ہزار ٹیکنالوجی لیب بنائی گئی ہیں جہاں نوجوان ترکی تربیت حاصل کرتے ہیں ،اردگان نے 47 ارب کا بجٹ خسارہ پورا کیا اور اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ جون میں بدنام زمانہ ورلڈ بینک کے قرضے کی 300 ملین ڈالر کی آخری قسط بھی ادا کردی صرف یہی نہیں بلکہ ترکی نے ورلڈ بینک کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا۔

مزید برآں ملکی خزانے میں 100 ارب ڈالر کا اضافہ کیا جبکہ اس دوران بڑے بڑے یورپی ممالک اور امریکا جیسے ملک قرضوں سود اور افلاس کی وادی میں حیران و سرگرداں ہیں ,10 سال قبل ترکی کی برآمدات 23 ارب ڈالر تھیں اب اس کی برآمدات 153 ارب ڈالر ہیں جو کہ دنیا کے 190 ممالک میں پہنچتی ہیں ان برآمدات میں پہلے نمبر پر گاڑیاں اور دوسرے نمبر پر الیکٹرانک کا سامان آتا ہے یورپ میں بکنے والی الیکٹرانک اشیاء میں ہرتین میں سے ایک ترکی کی بنی ہوئی ہوتی ہے،ترکی حکومت نے توانائی اور بجلی کی پیداوار کے لیے کوڑے کی ریسائکلنگ کا طریقہ اختیار کیا ہے اس سے ترکی کی ایک تہائی آبادی مستفید ہو رہی ہے۔

ترکی کے شہری اور دیہی علاقوں کے 98 فیصد گھروں میں بجلی پہنچ چکی ہے،اردگان نے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک بچے کے ساتھ مباحثہ میں شرکت کی جس میں ترکی کے مستقبل کے بارے میں گفتگو ہوئی اس بچے کی عمر 12 سال سے زائد نہیں تھی اردگان نے اس بچے کی بھرپور حوصلہ افزائی کی اپنے اس عمل سے اردگان نے ترک بچوں کو مباحثہ اور گفتگو کی ایک بہترین مثال پیش کی اس سے ان بچوں کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے عرب سیکولرز کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ ترکی کی دوستی کا جو شوشہ چھوڑا جاتا ہے اس کا عالم یہ کہ غزہ جانے والے ماوے مرمرہ جہاز پر جب اسرائیلیوں نے حملہ کیا تو ترکی نے اسرائیل کو بھرپور طمانچہ رسید کیا اور ناصرف اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا بلکہ معافی کے لیے غزہ سے محاصرہ ختم کرنے کی شرط بھی عائد کی,2009 میں ہونے والی دافوس اقتصادی کانفرنس میں جب اسرائیلی صدر پیریز نے غزہ پر حملے کا جواز پیش کیا اور لوگوں نے اس پر تالیاں بجائیں تو اسرائیل کے اس دوست اردگان نے تالیاں بجانے والوں پر شدید تنقید کی اور یہ کہہ کر اس کانفرنس سے اٹھ گئے کہ ” تمہیں شرم آنی چاہیے کہ ایسی گفتگو پر تالیاں بجاتے ہو حالانکہ اسرائیل نے غزہ میں ہزاروں بچوں اور عورتوں کی جانیں لی ہیں۔” اردگان نے اپنے مخالفین کا سامنا واٹر کینن سے کیا اس نے ان پر مگ طیاروں اور اسکڈ میزائیلوں سے حملہ نہیں کیا،اردگان نے اپنی بیٹی کے سر سے حجاب اتارنے سے انکار کیا۔
اور تعلیم کے حصول کے لیے اسے یورپ بھیج دیا یہ اس وقت کی بات ہے جب ترکی کی یونیورسٹیوں میں حجاب پر پابندی تھی اردگان وہ واحد شخص ہے جس نے اپنہ اہلیہ کے ساتھ برما کا دورہ کیا اور میانمار کے ستم رسیدہ مسلمانوں سے ملاقاتیں کیں۔
9 دہائیوں پر محیط سیکولر دور حکومت کے بعد اردگان نے ترکی کی یونیورسٹیوں میں قرآن اور حدیث کی تعلیم دوبارہ شروع کی،
اردگان نے یونیورسٹیوں اورعدالتوں میں حجاب پہننے کی آزادی دی ،اردگان نے۔
بحر اسود کی کنارے پر سب سے بڑے معلق پل پر (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے حروف پر مشتمل لائٹنگ کی جبکہ ایک عرب ملک نے دنیا کا سب سے بڑا کرسمس درخت بنایا جس پر 40 ملین ڈالر لاگت آئی۔
اردوگان ترکی کے نصاب میں عثمانی رسم الخط کو واپس لا رہا ہے جو درحقیقت عربی رسم الخط ہے۔
اردگان نے سات سال کی عمر کے 10 ہزار بچوں کے ایک جلوس کا اہتمام کیا جو اسطنبول کی سڑکوں پر یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ سات سال کے ہوگئے ہیں اور اب وہ نماز اور قرآن پاک کا حفظ شروع کریں گے ،کاش کہ ہم بھی اردگان جیسی کچھ حماقتیں کرسکتے۔ہمارے حکمران بھی کچھ ہمارے لیے سوچیں۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *