آٹزم کے شکار طلبہ و طالبات کی درس و تدریس۔آبیناز جان علی۔موریشس

گیارہ اور بارہ جنوری2021  کو رابندر ناتھ  ٹیگور سکنڈری اسکول میں آٹزم  سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ۔ ایس ۔ ڈی پر دو روزہ ورک شاپ کا اہتمام کیا گیا۔ نو بجے بارہ اساتذہ آڈیو ویژول روم میں موجود تھے اور موریشس انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے جناب شمش جھگروموجود تھے۔ آپ شعبہ مخصوص تعلیمی ضروریات سے وابستہ ہیں۔

آٹزم پر کافی فلمیں موجود ہیں جیسے کہ ’مائی نیم ایز خان‘، رین مین‘ اور’ فاریسٹ گمپ‘۔ سب سے پہلے ورکشاپ میں شرکت کرنے والے اساتذہ سے کہا گیا کہ جو دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں وہ الٹے ہاتھ سے لکھیں اور جو بایاں ہاتھ استعمال کرتے ہیں وہ دائیں ہاتھ سے ایک منٹ کے اندر اندر اپنا نام، پتہ، فون نمبر اور ای میل لکھیں۔ کوئی بھی ایک منٹ کے اندر یہ کام انجام نہیں دے پایا۔ اس مشق کے بعد اساتذہ سے پوچھا گیا کہ انہیں کیسا محسوس ہوا۔ سب نے اعتراف کیاکہ یہ تجربہ عجیب و غریب تھا اور دبائو محسوس ہوا۔ حروفِ تہجی کو صحیح طور سے لکھنے کی کوشش میں یا الفاظ کو لائن میں لکھنے کی کوشش میں ہی سارا وقت نکل گیا۔ اسی طرح جن بچوں میں آٹزم کی علامات پائی جاتی ہیں ان کاسارا وقت معلومات کے استعمال کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ اساتذہ کی ہدایات کو سنتے سنتے وہ الجھ جاتے ہیں یا پھر وہ صرف تحریر میں مصروف رہتے ہیں۔ اس لئے ان کی رفتار باقی طلبہ و طالبات سے کم ہوتی ہے۔
عام آدمی ایک ساتھ کئی کام کرسکتا ہے ,آٹزم میں مبتلا بچہ ایک وقت میں صرف ایک ہی کام انجام دے سکتا ہے۔ ۹۰ فی صد بچے دوسروں سے آنکھ نہیں ملاپاتے۔ آنکھوں سے بیک وقت کئی پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ اسی لئے آٹزم کے مرض کا شکار بچہ اس سے تذبذب میں پڑجاتا ہے۔
اساتذہ کو ایسے طالب علم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنی چاہئے تاکہ اس کے شوق، پسند ناپسنداورضروریات کا خیال رکھا جاسکے۔ ایک طالب علم تصاویر کی مدد سے، بات چیت کے ذریعے، تحریروں سے، رابطہ قائم کرنے سے اور مشاہدہ کرنے سے اور سوالات پوچھنے سے سیکھتا ہے۔ وہ اپنے افکارکی روشنی میں معلومات کو سمجھ کر مسائل حل کرتے ہیں۔
آپس میں گھل مل کر بات چیت کرتے ہیں۔ وہ اپنے اوصافِ خمسہ کی مدد سے دنیا کا تجربہ کرتے ہیں۔ آٹزم کے مرض کے شکار بچے شور و غل میں خود میں سمٹ کے رہ جاتے ہیں اور ان کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے۔ ایس۔ ڈی ایک پیدائشی نفسیاتی خرابی ہے۔ ڈیڑھ سال کی عمر سے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ تین سال کی عمر تک پوری طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ بچہ کو اے ۔ ایس ۔ ڈی ہے۔ اس سے ان کے سیکھنے کی آمادگی پر اثر ہوتا ہے۔ ان کے چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ بدلتا ہے، وہ اچھی طرح بات چیت نہیں کرپاتے، معاشری میل جول نہیں بڑھاپاتے اور ان کا رویہ بھی اثر پذیر ہوتا ہے۔ اسکول میں ان کی کارکردگی بھی کم ہوجاتی ہے۔
ورکشاپ میں ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی جہاں لندن میں آسٹزم کا شکار طالب علم عام اسکول میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ سلام کرنے کے لئے اسے مرکزی دروازے کے سامنے کھڑا کیا گیا تاکہ اسے دوسروں سے گھلنے ملنے میں آسانی ہو۔ اس کے لئے ایک رہبر بھی موجودہے جو کلاس کے دوران پریشان طالب علم کو مثبت الفاظ کے ذریعہ اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔
آٹزم کے شکاربچوں کا اعتماد پانا ضروری ہے۔ احساسِ تحفظ کے لئے ایسے بچے عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتے ہیں جیسے دونوں ہاتھوں کو بغل میں ہلانا۔ ہر بچے کی پریشانی مختلف ہے۔ ہر بچے کاخاندانی نظام یا گھر کے حالات، شعوری صلاحیت ، ذوق وشوق، ایقان، عمر اور شخصیت الگ ہے۔ جن لوگوں میں آٹزم کی علامات موجود ہیں،ان میں سے کچھ لوگوں کو پوری طرح سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کسی کو روزمرہ کے کام کرنے کے لئے یا زندگی گزارنے کے لئے بالکل سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اس مرض کے شکارچند افراد کم الفاظ استعمال کرنا جانتے ہیں اور اپنی زبان سے اپنی ضروریات بیان نہیں کرپاتے۔ بعض افراد اپنی دلچسپی دکھانے کے لئے نہایت پیچیدہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنی دلچسپی بیان کرتے ہیں۔ ایک طالب علم دوسروں سے دوستی کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا اکیلے رہنا پسند کرتا ہے اور اپنی جگہ پر کسی اور کی موجودگی پسند نہیں کرتا۔ کچھ بچوں میں معلوم نہیں پڑتا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ کسی کو شور سے چڑ ہوسکتی ہے تو کسی کو گانے کا شوق ہے۔ کسی کے لئے دن میں کلاس روم ، استاد یا مضامین بدلنا آسان ہوسکتا ہے۔ رنگ ان پر خاص اثر کرتا ہے۔
آٹزم کے شکار بچوں کے لئے منصوبہ بنانا ضروری ہے جس میں پورے دن کے بارے میں خصوصی معلومات درج ہوں۔ایسے بچے کم چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کا رویہ اکثر غیر متوقع ہوتا ہے۔ وہ اچانک زار و قطار روسکتے ہیں۔ وہ زیادہ بات نہیں کرپاتے، یا ماحول سے بے زار نظر آتے ہیں۔ وہ چیزوں کو قطار میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ہلتے رہتے ہیں، خود کو زخمی کرسکتے ہیںاور تبدل سے خوف ذدہ ہوتے ہیں۔ آٹزم کے مرض میں مبتلا بچہ ہر چیز کو سطحی طور پر لیتا ہے۔ وہ زیادہ حساس بھی ہوتاہے۔ وہ اپنے کھلونوں کو ترتیب میں رکھنا پسند کرتا ہے۔ آٹزم کا شکار بچہ دوست نہیں بنا پاتا۔ آٹزم کی کیفیات والے بچے کا ذہن آسانی سے ایک خیال سے دوسرے خیال تک پہنچ نہیں پاتا۔ ایک بات کو سمجھنے میں انہیں زیادہ وقت لگتا ہے۔
آٹزم کے مرض میں مبتلا طلبہ کے لئے ثانوی اسکول کا ماحول چیلنج دیتا ہے۔ آٹزم تین لیول یا سپیکٹرم پرہوتا ہے۔ پہلے لیول میں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بذاتِ خودنظم وضبط نہیں کرپاتے اور دوسروں سے بمشکل بات کرپاتے ہیں۔ وہ دوست بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔ دوسرے لیول کے بچے کو زیادہ رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے لئے زیادہ دشواریاں ہوتی ہیں۔ وہ ایک کام سے دوسرے کام کی طرف زیادہ بڑھتے ہیں۔ تیسرے لیول کے طالب علم کو سخت مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ انہیں اورزیادہ سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ کم بات کرتے ہیں اور اپنے اعمال کو دہراتے رہتے ہیں۔ کچھ صرف بنیادی ضروریات محسوس کرتے ہیں۔
آٹزم کے شکار بچوں کے لئے الفاظ بہت تیز جاتے ہیں۔ اسکول ان کے لئے ایک چیلنج ہے کیونکہ ہر طرف سے آوازیں ایک ساتھ آتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ ماحول ان کو شش و پنج میں ڈال دیتا ہے۔ ایک کام سے دوسرے کام کی طرف توجہ کرنا ان کے لئے نہایت پیچیدہ مرحلہ ہے۔ ہر مضمون کے لئے استاد بدلنا اور دوست بھی بدلنا ان کی قوتِ حافظہ کو تکلیف دیتی ہے۔ کارکردگی کے مطالبات سے انہیں شدید کشمکش ہوتی ہے۔ ہر وقت ہدایات کی تعمیل اور مطالبات پوری کرنے سے انہیں سخت بے چینی سے گزرنی پڑتی ہے۔ اس لئے وہ اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اسکول میں انہیں اساتذہ سے رشتہ استوارکرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔ وہ دوست نہیں بنا پاتے اورخود میں سمٹ کے رہ جاتے ہیں۔ وہ معاشری آئین و آداب سمجھ نہیں پاتے۔ ان کے رویہ کا اکثر غلط مطلب نکالا جاتا ہے۔ وہ اکثر دوسروں کی چھیڑ چھاڑ کے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے انجانی چیزوں سے خوف کھاتے ہیں۔ نئے ماحول سے انہیں ڈر لگتا ہے اور وہ جانی پہچانی دنیا میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ نئے ماحول کے اصول کو جاننے میں انہیں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ ان کے لئے یہ طے کرنا کہ کون سے ماحول میں کس طرح کا ردِ عمل دکھانا ہے، بہت مشکل ہے۔ ان کوتیز روشنی سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔
آٹزم کے شکار بچوں کو اسکول کی عمارت کا نقشہ دیا جائے۔ ہر مضمون کو الگ رنگ دیا جائے، اسکول کی جماعتوں اور اہم مقامات اور نظام اوقات کو رنگین بنایا جائے۔ روزمرہ کی استعمال شدہ اشیاء کی فہرست بنالی جائے۔ ان کو ایک ڈائری دی جائے جو استعمال کرنے میں آسان ہو۔ احباب کا حلقہ مضبوط ہو۔ اساتذہ میں کوئی بطور رہنما منتخب کیا جائے۔ اسکول میں ایک ایسی پرسکون جگہ طے کی جائے تاکہ بے چینی یا گھبراہٹ کے وقت وہ بچہ وہاں جاکر اطمینان کی سانس لے سکے۔ والدین کا ساتھ بھی اہم ہے۔
آٹزم  کے بچوں کی طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لیا جائے۔ کیا وہ جانوروں سے محبت کرتے ہیں؟ کیا وہ زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں یا پھر ریاضی یا کھیل کود پسند کرتے ہیں۔ ان کی پسند اور ناپسند کے مطابق نصاب بنایا جائے۔ تصاویر اور رنگ کی مدددرس و تدریس کو پرکشش بنایا جائے۔
آٹزم کے شکار طلبہ و طالبات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ جیسے ہیں انہیں ویسے ہی اپنایا جائے۔ ان کو بدلنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ان سے انسانیت کا سلوک کیا جائے اور مثبت رویہ اختیار کیا جائے۔ اساتذہ کی مدد سے وہ تمام کام میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں بات چیت اہم ہے۔ تعلیم کی دنیا میں یہ مسلسل کوشش کی جارہی ہے کہ تمام طلبہ و طالبات کو برابری کا حق ملے۔ سیاستی عہدے پر بھی زور و شور سے اس پر بحثیں چل رہی ہیں۔ یہ موضوع بین الاقوامی میدان میں بھی مرکزی اہمیت کا حامل ہے تاکہ سب کو یکساں مواقع ملے۔ بہت سے ممالک میں ماضی میں تعلیم کے میدان میں فرقہ بندی زیادہ عام تھی۔ جو بچے زیادہ ذہین تھے ان کو باقی بچوں سے الگ کردیا جاتا تھا۔ اب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے۔ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے اور اس کے مسائل بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی کا تجربہ بھی الگ ہوتا ہے۔ ایک اچھااستاد یہ مانتا ہے کہ ہر بچے کے اندر علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔
یونیسکو کے مطابق تعلیم کو بچوں کی مختلف ضرورتوں کو پورا کرنا چاہئے تاکہ ان کے جسمانی، شعوری، معاشری اور جذباتی ضروریات کوبہترین طریقے سے نشونما پانے میں مدد مل سکے۔ اسکول کے ماحول میں کسی طرح کی تفریق شامل نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں کئی بین الاقوامی قوانین رائج عام ہوئے ہیں جوخصوصی ضروریات کا معیار اور حدود طے کرتے ہیں۔
اساتذہ کے رویہ، تربیت کی اہمیت، درس و تدریس کے آلہ اورنظامِ تعلیم پر دوبارہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اسباق کے اغراض و مقاصد، وقت کی فراہمی، طلبہ و طالبات کو سمجھنا اور انہیں سیکھنے کے مواقع دینا، کلاس روم میں بچوں کی تعدادااور والدین سے بات چیت، کامیاب نظام تعلیم کے عناصر ہیں۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کو سہارے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسی جگہ فراہم کی جائے جہاں وہ حفاظت محسوس کرسکیں تاکہ انہیں مناسب سہارا دیا جاسکے۔ بہ صورتِ دیگر بچہ خود میں سمٹ کے رہ جائے گا اور دوسروں سے میل جول نہیں بڑھا پائے گا اور مایوسی اور شدید تشویش محسوس کرے گا۔ مثبت نظریہ اور خیالات کے ذریعے وہ اپنے اسکول کو اپنا سکے گا۔ پہلے دن کا سیشن ایک بجے ختم ہوا۔
دوسرے دن کو رامسہا صاحبہ نے ورکشاپ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس دن طرز ادئگی اور ٹیکنیک پر زیادہ زور دیا گیا۔ پکچر ایکسچینج کمیونیکیشن سستم وہ بین الاقوامی آلہ ہے جو مختلف تصاویر، اشیاء یا حرکات و سکنات کو عمل میں لاتے ہوئے درس و تدریس میں مدد کرتاہے۔ آٹزم کے شکار بچے مخصوص الفاظ یاد رکھتے ہیں۔ وہ آنکھوں دیکھی چیزوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس لئے ان کا نظام اوقات ان کے سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ نیزان کا نصاب زیادہ ہلکا ہونا چاہئے۔ کلاس کے لئے سبق تیار کرتے وقت استاکو د ان کے لئے ایک الگ مصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کے ساتھ ایک رہبر کا ہونا معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ استاد اور رہبر کے درمیان رابطہ ہونا اہم ہے۔
آٹزم کے شکار بچے زیادہ تر اکیلے میں کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے لئے کچھ دوست منتخب کیا جاسکتا ہے جو انہیں مدد دے سکے۔ استاد کو ان کے ساتھ قربت بنانا چاہئے۔ کلاس کا ماحول پرسکون ہونا چاہئے۔ بہتر رہے گا کہ بچہ بیٹھتے وقت دیوار کے سامنے رہیںتاکہ طالب علم کو خلوت میں وقت ملتا رہے۔ کچھ بچے صوتیات کی مدد سے سیکھتے ہیں۔ کچھ بچے ایسے مشاغل کے ذریعے سیکھتے ہیں جہاں انہیں حرکات و سکنات استعمال کرنا پڑے۔
آٹزم کے شکار بچے بامحاورہ زبان نہیں سمجھتے۔ اس لئے دوران گفتگو صاف اور آسان زبان استعمال کی جائے۔ سب سے پہلے طالب علم کو جاننا ضروری ہے۔ وہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اسے کچھوے میں دلچسپی ہے تو تمام اسباق میں کچھوے کو شامل کیا جائے یا کچھوے کا حوالہ دیا جائے تاکہ تجسس برقرار رہے۔
ان کو ایسی معلومات دی جائے جو عملی زندگی میں ان کے کام آسکے۔ اسکول کا منیجر، والدین اور طالب علم مل کرطے کریں کہ کون سے اسباق پڑھائے جائیں۔ آہستہ آہستہ بچے کو خودمختار بنانے کے لئے سہارے کو کم کیا جائے۔ بچے گروپ میں بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اس گروپ میں یا تو اسی کے معیار کے مطابق طلبہ و طالبات ہوں یا مختلف معیار یا ذہنی لیاقت کے طلبہ و طالبات ہوںتاکہ وہ ایک دوسرے کی رہنمائی کر سکیں۔
سب سے زیادہ ضروری ہے کہ جیسے ہی بچہ اس ادارے میں داخل ہو ایک دو ہفتے کے لئے اسے روز اسکول کے ماحول سے روشناس کیا جائے اور پہلے سے اس کی تعلیم کے طے شدہ اغراض و مقاصدکوعمل میں لایا جائے۔
ورکشاپ ایک بجے ختم ہوا۔

آبیناز جان علی
موریش

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *