وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دیے جائیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے انتقام کے جذبے کے تحت دہشتگرد متحرک ہوں گے اور پاکستان کے خلاف حملے شروع کردیں گے، اگر امریکہ افغانستان کے اندر 20 سال تک رہ کر جنگ نہیں جیت سکا تو ہمارے اڈوں سے وہ یہ کامیابی کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کیلئے ” Pakistan is ready to be a partner for peace in Afghanistan, but we will not host U.S. bases”(پاکستان افغانستان میں امن کا شراکت دار بننے کیلئے تیار ہے لیکن ہم امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دیں گے) کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا ہے۔
اپنے اس آرٹیکل میں وزیر اعظم عمران خان نے افغان جنگ، افغان امن عمل، فوجی اڈوں اور پاکستانی میں دہشتگردی کے حوالے سے کھل کر بات کی ہے۔ اپنے آرٹیکل میں وزیر اعظم نے لکھا ” ماضی میں پاکستان نے افغانستان میں لڑنے والی قوتوں میں سے ایک کا انتخاب کرکے غلطی کی لیکن ہم نے اس تجربے سے سیکھا ہے، ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے، ہم افغان لوگوں کے اعتماد سے قائم ہونے والی ہر حکومت کے ساتھ کام کریں گے۔ ہمارے ملک نے افغانستان میں جنگ سے بہت نقصان اٹھایا ہے، 70 ہزار سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے، پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا لیکن امریکہ نے 20 ارب ڈالر کی امداد دی، ہماری سیاحت اور سرمایہ کاری تباہ ہوگئی۔
امریکہ کی کوششوں کا حصہ بننے کے بعد پاکستان کو حصہ دار کے طور پر ٹارگٹ کیا گیا اور تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر گروپوں نے ہمارے اہلِ وطن کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیاں کیں۔ امریکہ کے ڈرون حملے، جن کے خلاف میں تنبیہہ کرتا رہا ہوں، نے جنگ نہیں جیتی البتہ انہوں نے امریکیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ کیا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے خلاف دہشتگرد گروپوں کو پھیلنے کا موقع ملا۔ میں نے سالوں تک کہا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
امریکہ نے اس امید پر کہ اس سے بے امنی ختم ہوجائے گی، پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ افغان سرحد کے قریبی نیم خود مختار قبائلی علاقہ جات میں اپنی فوج بھیجے۔ لیکن اس سے بے امنی کا خاتمہ نہیں ہوا البتہ اس نے قبائلی علاقوں کی آدھی سے زائد آبادی کو بے گھر کردیا، صرف شمالی وزیرستان میں 10 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، اربوں ڈالر کا نقصان اس کے علاوہ ہوا اور کئی دیہات مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگئے۔ ان علاقوں میں کولیٹرل ڈیمیج کی وجہ سے پاکستان کی فوج کے خلاف خود کش حملے کیے گئے اور ہمارے اتنے فوجی جوان شہید ہوئے جتنے امریکہ کے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں مشترکہ طور پر بھی نہیں مرے۔ اس سے ہمارے خلاف دہشتگردی میں اضافہ ہوا۔ صرف خیبر پختونخوا صوبے میں 500 پولیس اہلکاروں کو قتل کیا گیا۔
پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ اگر افغانستان میں سیاسی نظام کی تشکیل کیلئے دوبارہ خانہ جنگی ہوئی تو پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آئے گا جس سے ہمارے سرحدی علاقے تباہ ہوجائیں گے۔ ممکنہ خانہ جنگی کی صورت میں اگر پاکستان امریکہ کو افغانستان پر بمباری کیلئے فوجی اڈے فراہم کرتا ہے تو پاکستان کے خلاف دہشتگرد گروپوں کی جانب سے انتقامی کارروائیاں کی جائیں گی۔ سادہ سی بات ہے کہ ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ ہم پہلے ہی اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرچکے ہیں۔ اگر امریکہ جس کے پاس انسانی تاریخ کی سب سے طاقتور مشینری ہے، وہ افغانستان میں 20 سال تک رہ کر بھی جنگ نہیں جیت سکا تو وہ ہمارے ملک کے فوجی اڈوں سے یہ مقصد کیسے حاصل کرسکتا ہے؟
ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پہلے ہی بہت زیادہ سفارتی محنت کی، پہلے ہم طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لائے پھر ہم نے انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے راضی کیا۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر طالبان نے فوجی فتح کا اعلان کردیا تو افغانستان میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔
ہم تو پہلے ہی امریکہ، روس اور چین کی جانب سے کیے گئے اس مشترکہ اعلان کا حصہ ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی قوت طاقت کے بل بوتے پر کابل پر حکومت قائم کرتی ہے تو نہ صرف اس کی مخالفت کی جائے گی بلکہ اس کی غیر ملکی محاذوں پر کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔
میرا یقین ہے کہ معاشی تعلقات کا فروغ اور علاقائی تجارت ہی افغانستان میں امن اور سیکیورٹی فراہم کرسکتے ہیں۔ مزید فوجی ایکشن بے کار ہے۔ اگر ہم یہ مشترکہ ذمہ داری اٹھالیں تو ایک وقت میں گریٹ گیم اور علاقائی مخالفتوں کا سبب بنے والا افغانستان علاقائی تعاون کی مثال بن سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے افغانستان میں مفادات یکساں ہیں، ہم خانہ جنگی نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے امن چاہتے ہیں۔ ہم اپنی معیشت کو اوپر اٹھانے کیلئے معاشی ترقی اور سنٹرل ایشیا میں باہمی روابط اور تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔ اگر افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی ہوئی تو ہم سب کی کوششیں بے کار ہوجائیں گی۔”