لوک کہانی کیا ہے

لوک کہانیوں کی تاریخ بیحد پرانی ہے یہ ایک انسانی گروہ کا مشترکہ اظہار ہے جو کہ کہانیوں ، محاوروں ، لطیفوں وغیرہ کی کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں فنون لطیفہ ، لوگ گیت ، عوامی تیوہار وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئے رجحانانت اور خصوصیات کے ساتھ بعض قدیم تصورات بھی لوک کہانی میں موجود رہتے ہیں ۔ ایک ہی کہانی مختلف سیاق و سباق کے ساتھ مختلف علاقوں میں مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہے
لوک گیتوں کی مانند ہمارے یہاں بے شمار لوک داستانیں موجود ہیں ۔دادی نانیاں کے پاس بیٹھ کر لوک کہانیاں سنی جاتی ہیں۔ چوپالوں میں ان کی پیدائش اور ترقی کب ، کہاں کس کے ذریعہ ہوئی یہ بتانا نا ممکن ہے

لوک کہانیوں کی قدامت

لوک کہانیوں کی قدامت کی کھوج کرتے ہوئے ، تفتیش آخر کار رگ وید صحیفہ تک پہنچ کر رک جاتی ہے ۔ جسے صحیفہ کے ذریعہ “مکالمہ” کہا جاتا ہے۔ برہمن متون میں بھی ان کی روایت موجود ہے۔ یہی سلسلہ اوپنیشد میں بھی پایا جاتا ہے ، لیکن اس سے پہلے کہانی بالکل بھی نہیں تھی یہ نہیں کہا جاسکتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب میں پائے جانے والے رواج کی اصل بنیاد کہاں ہے؟ لوک داستانوں کی بھی ابتدائی جگہ اسی کو سمجھا جانا چاہئے جہاں ان کی ابتدا ہوئی تھی۔ پنچتنتر کی بہت سی کہانیاں لوک کہانیوں کی شکل میں لوک زندگی میں مشہور ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کہانیاں (پنچتنتر کی قسم کی) جو لوک زندگی میں پائی جاتی ہیں ، وہ بھی پنچتنتر میں نہیں ملتی ہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ وشنو شرما نے لوک کہانیوں سے فائدہ اٹھایا ہوگا تو یہ کوئی نامناسب بات نہیں ہے۔
ہیتوپدیش ، برہڈشلوک مجموعہ ، بریت کھا منجری ، بیتال پچیسی وغیرہ کی بنیاد لوگ زندگی ہے۔ جاٹک کہانیاں انتہائی قدیم سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی تعداد 5050 کے لگ بھگ ہے لیکن یہاں لوک داستانوں کی کوئی مقررہ تعداد موجود نہیں ہے۔ پراکرت زبان میں بھی بہت سے صحیفے ہیں۔ اصل پچاسی میں لکھی گئی “باہوکاہ” کہانی سریت ساگر ، برہاکتھا وغیرہ کا مرکزی مقام بن گئی۔ ان کی کچھ کہانیاں سنسکرت میں ڈھل گئی تھیں۔ اس طرح تحریری شکل میں ویدک مکالموں سے رواں دواں داستان جاری رہا۔ لیکن ان سب کی کل تعداد بھی لوک زندگی میں مقبول کہانیوں کی تعداد تک نہیں پہنچ سکتی ۔

ہندی لوک کتھائیں

ہندی کی لوک کہانیوں کے مطالعے سے یہ ان کی اپنی کچھ خوبیوں کا پتہ چلتا ہے ۔ انسان اپنے ابتدائی زمانے سے خوشی ، عیش و عشرت اور آرام کی تلاش میں مبتلا ہے ۔ خوشی کائناتی اور عالمگیری دونوں قسم کی ہوتی ہے۔ ہندوستانی روایت میں ” انت بھلا تو سب بھلا ” اس محاورے کو ایک اعلی مقام دیا جاتا ہے ۔ اسی محاورے کے مطابق ہماری لوک کتھاؤں کا انجام بھی خوشگوار ہوتاہے ۔شاید ہی ایسی کوئی کہانی ہو جس کا انجام غم انگیز ہو ۔ قدیم زمانے سے ہی ہندوستانی لوک داستانوں کا یہ مرکزی رجحان تھا۔ہذا لوک داستانوں کے کردار بہت سارے بہادر اور سنسنی خیز واقعات کے ذریعے آخر میں خوشی حاصل کرتے ہیں۔
متعدد لوک داستانوں کا بھی ہدف یہ بھی تھا کہ سامعین کو مختلف اقسام کے خدائی اور فطری قہر کا خوف دکھا کر دین ، دھرم اور فرض کی راہ پر گامزن کریں۔ لوک کہانیوں میں پوری دنیا ایک ایسی زمین پہ آجاتی ہے جہاں تمام جانداروں کی زبان ایک ہوجاتی ہے۔ کہیں انسان جانور سے بات کرتا ہے اور کہیں جانور پرندے سے بات کرتا ہے۔سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ایک ساتھ نظر آتے ہیں ۔
لوک گیتوں کی طرح لوک داستان بھی کسی حد یا بندش کو قبول نہیں کرتی ہے۔ یہ کہانیاں ممالک اور براعظموں کی حدود کو بھی عبور کر چکی ہیں۔ ان کہانیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔
اب تک کے لوک داستانوں کے مجموعوں میں بہت کم کہانیاں ہی سامنے آئیں ہیں ۔ اگر چہ ہم ان کے تحفظ کی بات کرتے ہیں مگر یہ کہانیاں دور جدید میں تیزی سے غائب ہو تی جا رہی ہیں ۔

تبلیغی کہانیاں

چھوٹی بڑی لوگ کہانیوں میں انسانی فلاح و بہبود کے لئے مختلف تعلیمات موجود ہیں۔ ایسی کہانیاں اکثر بالواسطہ زندگی کا سبق دیتی ہیں۔ لہذا یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کہانیوں کی تخلیق تبلیغ کے لئے بھی کی گئی ہوگی ۔ معاشرتی برائیوں سے بچنے کے لئے ان کہانیوں میں سبق موجود ہے ۔ کیونکہ کہانیاں پند و نصائح کے بجائے انسانی ذہن پہ زیادہ اثر کرتی ہیں ۔ ایسی بہت ساری کہانیاں ہیں جن میں گھر والوں کو بے شعور خواتین کی وجہ سے طرح طرح کے مصائب اٹھانے پڑے ہیں۔ سوتن یا سوتیلی ماؤں کی کہانیاں زیادہ ہیں ۔ ایسی کہانیاں بھی ملتی ہیں کہ جادوگر عورتیں مردوں پہ جادو ٹونے کر کے انہیں اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں ۔ نافرمان اولاد ی بھی سبق آموز کہانیاں مشہور ہیں ۔ کچھ کہانیاں تو اتنی ڈرامائی ہوتی ہیں کہ سامعین کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے اختتام خوشگوار ہوتا ہے ۔

سماجی کہانیاں

ان کہانیوں میں سماجی سطح پر طرح طرح کی برائیوں سے پیدا ہونے والے واقعات شامل ہیں۔ خاص طور پرگھریلو جھگڑے جیسے ساس بہو کے جھگڑے ، نند اور بھاوج کے جھگڑے وغیرہ شامل ہیں ۔ ہوس پرست سادھو سنت کے قصے ، ناکارے بادشاہ کی وجہ سے دکھوں کے بوجھ تلے دبی عوام کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ ان کہانیوں میں بچوں کی شادیاں ، بے جوڑ شادی ، ضد میں کی جانے والی شادی ، جہیز کی مذمت وغیرہ بھی موجود ہیں۔ معصوم اور بے قصور شخص کسی ظالم کے چنگل میں پھنس جاتا ہے اور پریشان ہوتا دکھائی دیتا ہے۔سماجی کہانیوں میں وہ کہانیاں خاص مقام رکھتی ہیں جس میں ہیرو اور ہیروئن خوفناک قسم کے امتحانات دیتے ہیں ۔ جن ہیرو اور ہیروئن کے کردار درست ہوتے ہیں وہ ان امتحانات میں اول درجے سے پاس ہو جاتے ہیں ۔

مذہبی لوک کہانیاں

ان کہانیوں میں عبادت کو اول مقام حاصل ہے ۔ شوہر ، بیٹے ،باپ بھائیوں کی سلامتی ان عبادتوں سے ہی ممکن ہے ۔ ہندؤں کے یہاں کروا چوتھ ، جیتیا جیسے کئی موقع پر عورتوں کو عبادت کرتے دکھایا جاتا ہے ۔ جو عورتیں عبادت کرنے سے انکار کرتی ہیں ان پہ آسمانی مصیبتیں ٹوٹ پڑتی ہیں ۔ ساری اولادیں ختم ہو جاتی ہیں اور آخر میں بھگوان سے معافی مانگنے پہ سب بھلا ہو جاتا ہے وہیں مسلمانوں کے یہاں روزے نماز کی پابندی کے ساتھ مزاروں پہ حاضری دینا یا دس بی بی کا فاتحہ کرانا لازمی قرار دیا جاتا ہے ۔ ان کہانیوں میں اگر کسی عورت نے فاتحہ کرنے سے انکار کر دیا تو اس کے گھر کے سارے اناج سڑ گل جاتے ہیں ۔ گھر کی دیواریں ریت کی مانند ڈھہ جاتی ہیں میاں بیوی سخت مشکل اور پریشانی کی حالت میں صحرا نوردی کرتے ہیں ۔ بعد میں عورت کو یاد آتا ہے کہ اس نے فاتحہ کرنے یا کسی مار پہ جانے یا روزہ نماز سے انکار کر دیا تھا ۔ پھر معافی تلافی کے بعد سب اچھا ہو جاتا ہے ۔

رومانوی لوک کتھائیں

لوک کتھاؤں میں محبت کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے ۔ ان میں ماں ، بیٹے ۔ شوہر بیوی ، بھائیوں اور بہنوں ، عاشق معشوق کی محبت دکھائی جاتی ہے۔
اکثر کہانیوں میں بیان کی گئی محبت وفاداری اور خلوص پر مبنی ہوتی ہے۔ کچھ ایسی کہانیاں بھی ہیں جن میں پیدائش کے بعد پیدائش سے پہلے کی محبت پروان چڑھتی ہے۔ سداورج سارنگا کی کہانی پچھلے جنم کی زندگیوں کی محبت پر مبنی ہے۔ شیت وسنت کی کہانی میں جب ماں کے ساتھ بد سلوکی کا واقعہ سامنےآتا ہے تو بھائی اور بھائی کی محبت بھی عروج کو پہنچتی دکھائی دیتی ہے۔بھائی بہن اور شوہر اور بیوی کی محبت پہ ان گنت کہانیاں موجود ہیں ۔ اکثر کہانیوں میں کسی خوبصورت لڑکی کو کوئی کالا دیو اٹھا کر لے جاتا ہے اور اس کا محبوب اپنی جان پر کھیل کر محبوبہ کو دیو کے چنگل سے نہ صرف چھین لاتا ہے بلکہ دیو کو زندگی کی قید سے آزاد بھی کرا دیتا ہے ۔

تفریحی لوک کہانیاں

ان کا بنیادی مقصد ہے۔ بچےایسی کہانیاں بہت جلدی یاد رکھتے ہیں ۔ یہ کہانیاں زیادہ تر مختصر ہوتی ہیں۔ کتے ، بلی ، گیدڑ ، لنگور ، شیر ، ریچھ ، طوطا ، کوا، چیل وغیرہ مختلف پرندوں اور جانوروں کی یہ کہانیاں بچوں کو تفریح ​​فراہم کرتی ہی ہیں ساتھ ہی ان کی ذہن سازی بھی کرتی ہیں ۔ ان میں سنجیدہ موضوعات ہوتے ہے لیکن واقعات کی پیشکش ہلکی پھلکی اور اصلاحی ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر کوے کی کہانی کو گھڑے میں کنکر ڈال کر پانی کی سطح بلند کرتا ہے اور اپنی پیاس بجھاتا ہے ۔
ان تفریحی لوک کہانیوں میں مزاح کا بھی دخل دکھائی دیتا ہے ۔ جیسے ڈھیلے اور پتے کی کہانی لیں ۔ پتے اور ڈھیلے میں دوستی ہوئی ۔ڈھیلے نے پتے سے کہا کہ آندھی آئے گی تو میں تمہارے اوپر بیٹھ جاؤں گا اس طرح تم اڑو گے نہیں ۔ پتے نے کہا ہاں بھائی اور جب بارش ہوگی تو میں تمارے اوپر آجاؤں گا تم گلو گے نہیں ۔اتفاق سے بارش اور آندھی ایک ساتھ آئی پتے میاں اڑ گئے اور ڈھیلے بھائی گل گئے ۔

نسلی کرداروں پر مبنی لوک کہانیاں

آخر میں ان لوک کہانیوں پر گفتگو کریں جو نسلی کرداروں پر مبنی ہے ۔ اس طرح کی کہانیاں احیر ، دھوبی ، نائی ، ملاح ، چمار اور دیگر ذاتوں سے وابستہ ہیں ۔ ان میں کچھ ہیروز بھی ہوتے ہیں۔ کہانی میں پیش کی گئی ذاتیں آپس میں کہتے سنتے اور لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اس طرح کی کہانیاں بڑی تعداد میں جنگلی ذاتوں جیسے کول ، بھیل ، دھمیر ، کھربار ، کرات اور دوسادھ وغیرہ میں یہ کہانیاں زیادہ مقبول ہیں ۔

مصنف: علی نثار
علی نثار صاحب کا تعلق حیدرآناد انڈیا سے ہے ۔ یہ کینڈا میں مقیم ہیں۔ بہترین افسانہ نگار ، ناقد اور مضمون نگار ہیں ۔ ان کے افسانے اردو کے تمام اہم رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ عالمی سطح پہ ان کی تحریروں کو مقبولیت حاصل ہے ۔ پیشے سے بزنس مین ہیں ۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *