برسوں قبل ہم نے یونیورسٹی ہاسٹل کے ایک بیرے سے کہا کہ کئی سے خالص دودھ مل سکتا ہے؟ بیرا کہنے لگا  اساتذہ کرام کے لیے الگ  ڈیری فارم ہے۔ وہاں سے مل سکتا ہے۔ قریب ہی  یونیورسٹی مارکیٹ سے پتہ کیا تو دودھ دینے والے نے بتایا کہ تین قسم کا دودھ دستیاب ہے۔ سب سے اچھے دودھ کا ریٹ ذرا  زیادہ ہے۔ ہم نے دکاندار کو  زور دے کر کہا کہ ہمیں اچھا۔ اس سے اچھا۔ اور اس سے اچھا دودھ نہیں چاہیے۔ ہمیں خالص دودھ چاہیے۔ کافی بحث کے بعد پتہ چلا کہ تینوں قسم کے دودھ میں خالص دودھ موجود نہیں تھا۔ 

آپ شہر میں رہتے ہیں۔ آپ کو شکایت ہے کہ آپ کو خالص دودھ نہیں ملتا۔ترقی  پذیر ملک کے شہر میں رہتے ہوں گے۔اگر ترقی یافتہ شہر میں رہتے ہوتے تو خالص دودھ ضرور ملتا۔ یہی سوچتے ہوں گے آپ؟اگر ہم کو بتائیں کہ ہمیں دنیا کے ترقی  یافتہ ترین شہر میں بھی خالص  دودھ نہیں ملا تو آپ یقین نہیں کریں گے۔ ناروے کے دارلحکومت اوسلو میں ہم کئی برس سے مقیم ہیں۔او ر بھی شہروں میں بھی رہتے رہے  ہیں۔ تین قسم کے دودھ سے ہم واقف ہیں۔ بغیر فیٹس کے۔ تھوڑی فیٹس کے ساتھ اور تیسری قسم پوری فیٹس کے ساتھ دودھ۔ سب سے  پہلے ہم نے پوری فیٹس والا دودھ آزمایا۔ ہفتوں میں وزن بڑھ گیا۔ 

ُپھر ہم نے بغیر فیٹس کے دودھ استعمال کرنا شروع کیا۔ کئی ہفتوں بعد پتہ چلا  اس میں اور پانی میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ البتہ دبلے ضرور ہوگیے ہم۔ بات بنی نہیں۔ اب تھوڑی فیٹس کے ساتھ دودھ شروع کیا۔صحت پر اثرات کا کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کیا مرتب  ہوے لیکن برس ہا برس تک تھوڑی فیٹس والا دودھ استعمال کرتے رہے ہیں۔لیکن خالص دودھ کی کمی محسوس ہوتی رہی  ہمیشہ۔اوسلو شہر  کے مضافات میں بچوں کے ساتھ ایک فارم میں وزٹ کرنے کا موقع ملا  تو کچھ جانور اور مرغیاں دیکھنے کو ملی۔بہت سی گاے باندھی ہوئی  تھیں بیل کوئی نہیں دیکھا۔ آج تک ہم سوچتے رہتے ہیں ان لوگوں نے پورے فارم میں سے بیل کیوں تلف کرلیے تھے؟ گاے اور  بکریوں کے لیے ہیٹر لگے ہوے تھے۔ ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ فارم والوں سے پوچھتے ہیں۔ کیا خالص دودھ مل سکتا ہے۔ یعنی وہ  دودھ جو گاے سے دویا گیا ہو اور پراسیس نہ کیا گیا ہو۔

 دودھ کا قدرتی طور پر ایک تناسب ہے۔ پراسیس کیے ہوے دودھ میں اس کے اندر  غذائی اجزا  میں ردوبدل کیا جاتا ہے۔ بے شمار پراڈکٹس بناے جاتے ہیں۔ مارکٹس میں بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ اور دنیا بھر میں دودھ کے پراڈکٹس کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔چھوٹا منہ بڑی بات ہے ہماری۔ ہمیں وہ دودھ چاہیے تھا جو گاے سے دویا گیا ہو اور مشینوں میں پراسیس نہ ہوا  ہو۔  فارم میں بیٹھی سفید فام خاتون کے دفتر میں حاضر ہوکر ہم نے عرض کی کہ کیا ہمیں ایک کلو خالص دودھ مل سکتا ہے؟ سفید فام خاتون نے عرض کی وہاں فارم میں دودھ نہیں بیچا جاتا۔ ہم نے عرض کی ہمارے علم میں ہے کہ فارم میں دودھ نہیں  بیچا جاتا۔ بس ہماری درخواست ہے کہ ایک آدھ کلو تازہ  دودھ جو آپ گاے سے لیتے ہو ہمیں دے دو۔ خاتون کہنے لگی اگر وہ ایسا کریں گی تو انہیں خدشہ ہے کہ جس کمپنی سے ان کا کنٹریکٹ ہے وہ کمپنی کنٹریکٹ کینسل کر سکتی ہے۔ ہم نے پوچھا آپ کس ریٹ پر دودھ کمپنی کو  بیچتے ہو۔ خاتون بولی۔ ہم جس ریٹ پر بیچتے ہیں۔ کمپنی پراسیس کے بعد دودھ مارکیٹ میں بیچتی ہے اور  پندرہ گناہ  زیادہ قیمت پر مارکیٹ میں بیچا جاتا ہے۔ خاتون نے بہت معذرت کی کہ آدھا کلو دودھ دینا بھی انکے بزنس کنٹریکٹ کے لیے نقصان دہ بات ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں ایک اور  وجہ بھی تھی کہ چیک اور بیلنس ترقی یافتہ دنیا میں اتنا ٹائیٹ ہے کہ خاتون مجھے آدھا کلو دودھ چھپا کہ بھی نہیں دے سکتی تھی۔فرسٹیشن ہوئی مجھے۔ اپنے ملک کے شہر میں بھی خالص دودھ نہیں ملتا اور ترقی یافتہ ترین ملک کے شہر میں بھی خالص دودھ نہیں ملا۔

لیکن ہمارے ایک عزیز نے ہمیں چونکا دیا۔ بتانے لگے کہ اسلام آباد کی فلاں مارکیٹ میں سرے عام اور دن دہاڑے خالص دودھ بیچا جاتا  ہے۔ ہم نے انکی بات پر ہنسی اڑائی اور کہا کہ دن دہاڑے اور سرے عام اسلام آباد کی ایک عام سی مارکیٹ میں خالص دودھ کیسے بک سکتا  ہے؟ اس آدمی کا دماغ خراب ہے جو زیادہ سے زیادہ پیسے نہیں کمانا چاہتا  اور خالص دودھ کوڑیوں کے عوض بیچے جارہا ہے۔ہم نے کہا  آپ اتنے دعوے سے کہہ رہے ہیں تو پھر ہم ضرور آزمائیں گے کہ وہ پاگل آدمی کون ہے؟ ہم ان محترم کے پاس گیے اور عرض کی دودھ  چاہیے۔ موصوف نے دودھ کا آدھ کلو ہمارے ہاتھ میں تھمایا۔ ہم نے عرض کی کہ کیا یہ دودھ خالص ہے؟ موصوف میری طرف دیکھتے رہے  اور خامو ش رہے۔ میں نے پھر عرض کی میں نے سنا ہے آپ خالص دودھ بیچتے ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟ بولے یہ دودھ گاے اور بھینس کا مکس  ہے۔ اگر میں آپ کو ملاوٹ والا دودھ دے رہا ہوں تو روز محشر میں آپ کے سامنے جواب دہ ہوں گا۔ موصوف خالص دودھ بیچتے ہیں اور شہر کے بیچوں بیچ۔ سرے عام۔ بغیر کسی خوف کے۔ہم نے سوچا جب تک اچھے لوگ بھی ہیں  وطن  عزیز میں ملک چلتا رہے گا۔ 

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *