اصول ہشت گانہ (دار العلوم دیوبند)
اصول ہشت گانہ ہشت فارسی لفظ ہے ، اس کے معنی ہیں آٹھ 8 ، یعنی آٹھ اصول ، اصول ہشت گانہ وہ اصول ہیں جنھیں مولانا قاسم نانوتوی بانی دار العلوم دیوبند نے دار العلوم دیوبند کے لیے بطور آئین تحریر کیا تھا ، جو نہایت گہرائی اور گیرائی کے حامل ہیں اور آج تک دار العلوم دیوبند اس پر پوری طرح کاربند ہے ـ
پہلا اصول
اصل اول یہ ہے کہ تامقدور کارکنان مدرسہ کو ہمیشہ تکثیر چندہ پرنظر رہے ، آپ کوشش کریں ، اوروں سے کرائیں ، خیر اندیشان مدرسہ کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے
دوسرا اصول
ابقائے طعام طلبہ ، بلکہ افزائش طلبہ میں جس طرح ہو سکے خیر اندیشان مدرسہ ہمیشہ ساعی رہیں ۔
تیسرا اصول
مشیران مدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی ہو ،اپنی بات کی پچ نہ کی جایے ، خدانخواستہ جب اس طرح کی نوبت آیے گی تو اہل مشورہ کو اپنی مخالفت رایے اور اوروں کی رایے کے موافق ہونا ناگوار ہو تو پھر اس مدرسہ کی بنیاد میں تزلزل آجایے گا ۔ القصہ تہ دل سے بر وقت مشورہ اور نیز اس کے پس و پیش میں اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے ،سخن پروری نہ ہو اور اس لیے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہار رایے میں کسی وجہ سے متامل نہ ہوں اور سامعین بہ نیک نیت اس کو سنیں ، یعنی یہ خیال رہے کہ اگر دوسرے کی بات سمجھ میں آجایے گی تو اگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو بدل و جان قبول کریں گے اور نیز اسی وجہ سے یہ ضرور ہے کہ مہتمم امور مشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کیا کرے ، خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیر مدرسہ رہتے ہیں یا کوئی واردو صادر جو علم و عقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو اور نیز اس وجہ سے ضرور ہے کہ اگر اتفاقا کسی وجہ سے اہل مشورہ سے مشورہ کی نوبت نہ آیے اور بقدر ضرورت اہل مشورہ کی مقدار معتدبہ سے مشورہ کیا گیا ہو تو پھر اس وجہ سے ناخوش نہ ہو کر مجھ سے کیوں نہ پوچھا ، ہاں اگر مہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہل مشورہ معترض ہوسکتا ہے ۔
چوتھا اصول
یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین مدرسہ باہم متفق المشرب ہوں اور مثل علما روزگار خودبین اور دوسروں کے درپئے توہین نہ ہوِں ، خدانخواستہ جب اس کی نوبت آیے گی تو پھر اس مدرسہ کی خیر نہیں ۔
پانچواں اصول
خواندگی مقررہ اس انداز سے جو پہلے سے تجویز ہوچکی ہے یا بعد میں کوئی اور انداز مشورہ سے تجویز ہو پوری ہوجایا کرے ، ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آباد نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو بے فائدہ ہوگا ۔
چھٹا اصول
اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں ، جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہو گئی ، جیسے جاگیر یا کارخانہ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجا جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجایے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجایے گا ، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے ۔
ساتواں اصول
سرکار کی شرکت اور امرا کی شرکت بھی مضر معلوم ہوتی ہے ۔
آٹھواں اصول
تا مقدور ایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو ، بالجملہ حسن نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے ۔
حوالہ جات
تاریخ دار العلوم دیوبند 152 تا 154