یہ 80 کی دہائی کی بات ہے سوویت افغان جنگ زوروں پر تھی ملک کے گلی کوچوں میں ” مردِ مومن مرد حق” کا چرچا تھا جب پہلی بار ملک میں بجلی کے بحران نے زور پکڑ لیا کیونکہ ایوب خان کے بعد کسی نے بجلی بنانے پر توجہ نہیں دی تھی نہ کوئی نیا ڈیم بنایا گیا تھا تو ایسے میں بجلی کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے بلآخر بحران کی شکل اختیار کر لی اور ملک میں پہلی بار لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا۔

خیر “مردِ مومن” صاحب تو اُس وقت افغان جنگ میں مصروف تھے اور جب أم کی پیٹی اور ہواٸی جہاز والا وقعہ بھاولپور میں رونما ہوا تو اس کے بعد اُمید تھی کہ آنے والی حکومتیں اس پر توجہ دیتی لیکن نواز شریف اور بینظیر کی حکومتیں بھی اس بحران کے خاتمے میں ناکام ثابت ہوئی۔

90 کا اوائل تو دونوں لیڈران کے مابین جاری سیاسی کشمکش کی نظر ہوگیا بجلی کا بحران اور لوڈ شیڈنگ بڑھتی ہی چلی گئی 1996 میں پہلی دفعہ بینظیر نے بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے شارٹ کٹ طریقہ سوچا اور بجائے ڈیم بنانے کے اُنہوں نے پرائیویٹ بجلی کمپنی “کار کے” سے ملک میں بجلی بنانے کا ڈالرز میں مہنگا ترین معاہدہ کر لیا اور اُسی معاہدے میں کرپشن اور کک بیکس لینے کے الزام میں آصف زرداری کو دنیا بھر میں ” مسٹر ٹین پرسنٹ” کے لقب سے پُکارا جانے لگا۔

یہ ملک میں بجلی کے نظام میں تباہ کاریوں کا نقطہ آغاز تھا۔

کہانی يوں ہی چلتی رہی بینظیر کی حکومت گئی تو نواز شریف کی حکومت آئی اور وہ بھی جلدی ہی رخصت ہو گئی اُس کے بعد مشرف نے لمبے عرصے کیلئے اقتدار سنبھالا مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں بجلی بحران پر قابو پانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے بلکہ سابقہ پالیسیوں کو ہی جاری رکھا

مشرف گیا تو زرداری آیا، زرداری کے دور میں بجلی کا بحران سنگین ہوگیا تھا زرداری کا دور حکومت تو زیادہ تر لوگوں کو یاد ہوگا کہ کیسے 12، 12 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ پہنچ گئی تھی زرداری کی حکومت نے اس عذاب پر قابو پانے کیلئے بینظیر کی طرح ایک اور شارٹ کٹ سوچا اور اس وقت کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے پرائیویٹ کمپنیز سے کرائے پر بجلی بنانے کے مہنگے ترین معاہدے کیے جس کی وجہ سے راجہ پرویز اشرف کو “رینٹل راجہ” کا خطاب دیا گیا بعد میں انہی معاہدوں میں مبینہ کرپشن پر نیب کے مقدمے بھی قائم کیے گئے

اب آپ اس کہانی میں اپنی حکومتوں کی ترجیحات ملاحظہ کریں کہ بجائے کوئی لانگ ٹرم پلاننگ کرتے اللہ نے جو پاکستان کو پانی کے وسائل سے نوازا ہے اُس کو بروئے کار لاتے ہوئے نئے ڈیمز کی تعمیر شروع کر کے عوام کو سستی بجلی فراہم کرتے انہوں نے ہمیشہ شارٹ کٹ اور پیسہ بنانے کیلئے بجلی کے مہنگے ترین معاہدے کیے

لیکن اس بربادی کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سلسلہ جاری ہے

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *