سینیئر سیاستدان شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا بدترین بجٹ پاس کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں مفتاح اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’موجودہ بجٹ میں پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔‘

انھوں نے حکومتی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بجٹ کے تحت ملک کی معیشت نہیں چل سکتی، ٹیکس کا یکساں نظام ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کے تنخواہ دار طبقے پر، ایکسپورٹر پر ٹیکس لگا کر آپ نے معیشت کی ترقی کو ختم کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس بجٹ میں آج بھی نان فائلر کی کیٹیگری موجود ہے اور یہ آج بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ آج تو حکومتی خسارہ اتنا ہے کہ آپ کے پاس عیاشیاں کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مہنگائی کی بات کریں تو جو ریٹیلر رجسٹرڈ ہیں وہ جو چیز بیچیں گے اس پر آدھا فیصد اور جو رجسٹرڈ نہیں ہیں ان پر ڈھائی فیصد لگے گا، یہ بھی عوام کی جیب سے آئے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن ہم جو ایل پی جی ڈیزل سمگل ہو رہی ہے اس کو نہیں چھیڑیں گے، ہم اربوں کی سگریٹس بک رہی ہیں ان کو نہیں چھیڑیں گے۔ ایک اور بڑی عجیب بات ہے کہ جب فاٹا کا اضمام ہوا تھا تو وہاں جو فیکٹریاں لگی تھیں انھیں پانچ سال وہی چھوٹ ملی تھی سیلز ٹیکس کی جو اس سے پہلے تھی۔

’یہ فیکٹریاں بغیر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کے مال بناتی ہیں اور پاکستان میں فروخت کرتی ہیں۔ اور جب آپ کم قیمت پر پاکستان میں مال بنا رہے ہوں تو دوسری فیکٹریاں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ انھیں ایک بار پھر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے، حالانکہ ان سے فاٹا کی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ صرف کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پراپرٹی بیچنے پر ڈھائی سے چار فیصد تک لیکن اس میں ایسی شق رکھی ہے جس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے سویلین اور ملٹری کے ریٹائرڈ لوگوں کو چھوٹ دے دی گئی ہے۔ جب آپ اس قسم کی شقیں لگاتے ہیں تو لوگ سوال پوچھیں گے۔

’ایک اور معاملہ سمجھ سے باہر ہے اور وہ برآمدات کے شعبوں پر ٹیکس لگانا، ڈیڑھ سے دو فیصد ٹیکس کم سے کم لگایا جائے گا جب آپ کو سب سے زیادہ ڈالرز کی ضرورت ہے۔‘

شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ’آپ ملک کے تنخواہ دار طبقے کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں، میں حکومت ہوں اپنے اخراجات کم نہیں کروں لیکن بوجھ تم پر ڈالوں گا، تو یہ ملک کیسے چلے گا؟

’کیا اس ملک میں جو دوسروں پر ٹیکس لگاتے ہیں خود ان پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے؟ یہ ہوتی ہے اشرافیہ جو اپنے آپ کو بھی بچاتی ہے اور اپنے دوستوں کو۔‘

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’آپ نے آج تک ڈسکوز کی نجکاری کرنے کی بات بھی نہیں کی، آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ حکومت کا حجم کیسے کم کرنا ہے۔

’آئی ایم ایف نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ 500 سے 600 ارب ایم این اے ایم پی ایز کو دیں، انھوں نے نہیں کہا تھا کہ آپ 24 فیصد جاری اخراجات بڑھائیں، آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ زراعت پر ٹیکس لگائیں، ریٹیلر پر فکسڈ ٹیکس لگائیں وہ آپ نہیں لگا رہے، پراپرٹی ٹیکس بھی نہیں لگا رہے، آئی ایم ایف نے تو آپ سے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کا نہیں کہا تھا۔‘

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *