پانچ اگست 2023 کے دن اسلام آباد کے ایڈشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت تھی جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کا معاملہ زیر سماعت تھا۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان پر الزام تھا کہ انھوں نے توشہ خانہ سے مختلف ممالک کے سربراہان کی جانب سے دیے گئے تحائف معمولی رقم دیکر حاصل کیے اور بعدازاں انھیں اپنے انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔

عدالت نے ملزم عمران خان کو ذاتی حثیت میں طلب کر رکھا تھا لیکن وہ لاہور میں اپنے گھر زمان پارک میں موجود تھے۔ اس روز عدالت کے جج نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا کو متعدد بار اپنے موکل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

عمران خان کے وکلا کی جانب سے دلائل مکمل نہ ہونے کے باوجود عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور پھر دن 12 بجے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو 3 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔

اس روز سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکلا نے عمران خان کی حاضری سے استثنٰی کی درخواست بھی عدالت میں جمع نہیں کروائی تھی۔ جب عدالت نے فیصلہ سنایا تو عمران خان کے وکلا ایک دوسرے پر یہ الزام دھرتے رہے کہ انھوں نے عمران خان کی حاضری سے استثنٰی کی درخواست عدالت میں دائر کیوں نہیں کی۔

اسلام آباد پولیس کی قیادت شاید پہلے سے ہی تیار تھی۔ ایک ایس پی کی سربراہی میں اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور روانہ کر دی گئی تھی جنھوں نے فیصلہ سنائے جانے کے دو گھنٹے کے اندر اندر ہی عمران خان کو زمان پارک میں ان کے آبائی گھر سے گرفتار کرلیا۔

گرفتاری کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کو پہلے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رکھنے کا فیصلہ ہوا اور پھر عمران خان کو اٹک جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ ایک ماہ اور 21 دن اٹک جیل میں گزارنے کے بعد انھیں ایک بار پھر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔

اگرچہ گرفتاری کے بعد یکے بعد دیگرے سابق وزیر اعظم کو عدالتی ریلیف ملتا چلا گیا تاہم عمران خان ساڑھے نو ماہ سے اڈیالہ جیل میں ہی ہیں۔ اس دوران انھیں صرف ان کے قریبی اہلخانہ اور رشتہ داروں، وکلا اور گنے چنے پارٹی رہنماوں کے علاوہ کچھ صحافیوں نے ہی دیکھا۔ اس دوران عمران خان نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت کی طرف سے اپیل کی سماعت میں سکائپ کے ذریعے آن لائن بھی پیش ہوئے تھے۔

ایک سال کے دوران عمران خان کو گزشتہ سال مارچ اور اس سے پہلے درج ہونے والے 13 مقدمات میں اسلام آباد کی مقامی عدالتوں نے بری کردیا ہے تاہم ابھی بھی درجنوں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جن کا فیصلہ ہونے میں بھی ایک عرصہ لگ سکتا ہے۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *