logo
آج کل خوبصورت عنوانات کو موعضوع بحث لا کر عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کوشش کی جاتی ہے خوب بحث مباحثہ ہوتا ہے کبھی نہایت الجھے ہوئے مسائل کو نہایت سادہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کبھی سلجھے ہوئے مسائل کو الجھا کر پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے اور اس طرح موضوع بغیر کسی نتیجہ کے ختم کر دیا جاتا ہے اس بحث وتمحیص کو آذادی کا نام دیا جاتا ہے جیسے اظہار رائے کی آذادی ، جمہوریت کی آذادی، نسواں کی آذادی، لامحدود ملکیت کی آذدی، سرمایہ داری کی آذادی اور سرمایہ کاری کی آذادی وغیرہ ۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
؎ امیر شہر غریب کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بنام مذہب کبھی بنام بہ حیلہ وطن
ٓآذادی شطر بے مہار کی طرح نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے وہ کرے بلکہ آذادی حدود وقیود اور دائرے کے اندر آذادی آذادی ہوتی ہے ۔ایسی آذادی جو اپنے دائرے کو چھوڑ کر دوسرے کے دائرے میں ہوجائے تو یہ آذادی نہیں بلکہ ظلم ہوجاتا ہے ۔ آج اہل مغرب نے آذادی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کھلی آذادی ہے کہ اپنی مصنوعات منہ مانگے داموں فروخت کر کے اربوں روپئے منافع حاصل کریں اور مذدور کو صرف اتنا دیں کہ جسم اور جان کا رشتہ مشکل قائم رکھ سکے۔
جاگیرداروں کو کھلی آذادی ہے کہ وہ زمین کا مالک ہونے کے نام پر کاشتکاروں کی محنت کو ہڑپ کریں اور انہیں قبر کی جگہ بھی نہ دیں آذادی نسواں کے نام پر عورتوں کو کھلی چھٹی ہے کہ جس طرح چاہیں جسمانی نمائش کریں ۔اظہار رائے پر دوسرے مذاہب کی مقدس شخصیات کی توہین کریں ۔ جمہوریت کے نا م پر سرمایہ کاری کریں اور پھر اقتدار میں جاکر جمور کے خون چوسنے کی کھلی آذادی۔اور اسی طرح سرمایہ کاری کی آذادی کے نام پر دوسرے ممالک کو لوٹنے کی کھلی آذادی۔
حالانکہ نام کے بجائے معنویت کو مدنظر رکھناضروری ہوتا ہے اور حقیقی آذادی معنوی ہے ۔ اسلام نے غلامی کے نام کو تو برقرار رکھا لیکن ان کو معنوی آذادی جس کی وجہ سے غلام حقوق میں آقا کے برابر ہوگیا اور آقا وغلام باری باری اونٹ پر سفر کرتے ۔ میرے خیال میں یہ مثال دنیا کا کوئی دوسرا نظام دینے سے قاصر ہے کہ غلام تخت شاہی پر متمکن ہوئے ہو ہندوستان جب اسلامی نظام تھا تو اس دور میں غلاموں نے کئی عشروں تک حکومت کی ۔
اسلام نے لامحدود ملکیت کو معنوی طور پر ختم کیا اور فرمایا لوگ جو سونا اور چاندی اکھٹی کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ [عوام]پر خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنائو۔ جس دن اس سونے اور چاندی کو گرم کرکے ان کی پیٹھوں ، چہروں اور پہلوئوں کو داغا جائے گا ۔جاگیرداری کو معنوی طور پر ختم کیا اور اور قرآن سورۃ بقرہ میں فرمایہ جو زمین میں ہے وہ تم سب انسانوں کے لیئے پیدا کیا گیا ہے ۔ حدیث میں فرمایا کہ جو مردہ زمین کو ذندہ کرے وہ اسی کی ہے ، یعنی جو کاشتکاری کرتا ہے وہ اسی کی ہوتی ہے ۔
عورتوں کو بازار حسن اور اشتہار بننے کی آذادی کے بجائے حقیقی آذادی حقوق کی آذادی دی ۔ اور حقوق میں مردوں کے بربر کردیا اظہار رائے کی کے نام پر دوسروں کے باطل معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا اور فرمایا جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو اس کے نتیجے میں وہ بھی اللہ کو دشمنی ، جہالت اور ظلم کی وجہ سے برا بھلا کہیں گے ۔
مجھے جس طرح اہل مغرب کے تھینک ٹنک سے نفرت ہے کہ وہ اچھے ناموں کو اپنے مذموم عزائم کے حصول کے لیئے استعمال کرتے ہیں اسی طرح مجھے پاکستان کے ان انتہا پسندوں سے بھی شکوہ ہے کہ وہ بھی اسلام کی مقدس اصطلاحوں کو تو استعمال کرتے ہیں لیکن ان اصطلاحوں کی روح اور معنویت مد نظر نہیں رکھتے اور ان کے اس عمل کا نتیجہ بھی مغرب کے مزموم مقاصد کو پورا کرنے کے حق میں نکلتا ہے ۔ مثلا گزشتہ دو عشروں جہاد کے نام پر جو کچھ کیا اس کا سب سے ذیادہ نقصان انہی کو ہوا اور فائدہ امریکہ کو ۔ اس لیے تو اس نے دو عشروں تک ان مجاہدین کی بھر پور مدد کی ۔
آج ہم نے جہاد کے روح کو مدنظر نہیں رکھا جہاد فتنہ رفع کرنے کا نام ہے نہ کہ فتنہ برپا کرنے کا ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور نظام اللہ کا قائم ہوجائے ۔ آج شریعت کے نام پر اسیروں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جاتا ہے پھر انہیں میڈیا پر دیکھایا جاتا ہے، بازاروں میں گھمایا جاتا ہے اور دنیا کو اپنے اسلام پسند ہونے کا پیغام دیا جاتا ہے۔ شریعت کے نام پر شریعت کی بیخ کنی کی جاتی ہے یہ لوگ اسیران بدر سے کئے گئے سلوک کو بھول گئے ہیں اور اسامہ بن ذید ؓ کے لشکر کو روانہ کرتے وقت رحمت عالم ﷺ کی نصائح بھول گئے ہیں۔
اسلام اور شریعت کی روح کو مدنظر رکھنا چایئے اور نتائج کو مدنظر رکھنا چائیے ۔ حضرت عمرؓ نے جب قحط کے دور میں اب حدود نافذ کرنے سے شریعت کے مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو قاضیوں کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنی ذندگی بچانے کی خاطر چوری کریں ۔ آپ ؓ کے سامنے شریعت کی روح تھی ڈھانچہ نہیں تھا ۔ لہذا میری تمام باشعور افراد سے گزارش ہے کہ وہ کسی نام سے خواہ ان کے ساتھ کتنے ہی اسلام کے لاحقے لگے ہو ان سے متائثر نہ ہو ۔ بلکہ ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو مدنظر رکھیں ۔ مثلا اسلامی بینکاری، اسلامی ممالک کی تنظیم، آذاد ملک،آذادی اظہار، جمہوریت، شریعت بل وغیرہ کہ ان مقدس اصطلاحوں کو استعمال کر کے ہم نے ان کے آڑ میں اپنے مقاصد تو حاصل کئے آج تک کیا نتیجہ نکلا مذہب کو کتنا فائدہ ہوا اور عوام کو کیا حقوق ملے؟؟؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *