َََِِِِِِِِــــِِِ’’میں شاعرہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے اُلفت ہے ۔
میرا دل دشمن ِنغمہء سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
میرا مقصد فقط شعلہء نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں جوانی لغزشوں کا ایک طوفان ہے
میری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا،،
ایک آ دمی مسلسل گھاس کاٹ رہا ہے اور ساتھ میں ایک بچی بھی ہے جو گھاس کواکھٹا کر رہی ہے ۔آدمی کی قمیض شانے سے کچھ پھٹ سی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آدمی درانتی کو شانے پر ہی اکثر رکھتا ہے ۔ لڑکی کے کپڑے بھی کچھ کچھ پھٹے سے ہیں اور جوتے تو بلکل ہی پھٹ چکے ہیں لیکن پھر بھی بہت خوبصورت لگ رہی ہے بلخصوص سنہرے رنگ کے میلے اور گھنگریالے بال،اور یہ بڑی بڑی معصومیت سے لبریز آنکھیں تو مجھے قدرت کی تعریف کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ شاید ہی میری آنکھوں کا دھوکہ ہو!
یا پھر شاید!
’’ایک بار اُس کو میری نگاہوں سے دیکھ لو
پھر خود کہو کہ کون ہے سودائی دوستو،،
آسمان آج بہت حسین دکھائی دے رہا ہے چھوٹی چھوٹی سی بدلیاں آسمان میں تیر رہی ہیں جس کی وجہ سے آسمان کی دلکشی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔ اور جب یہ شرارت سے بھری ہوئی بدلیاں سورج کے سامنے آجاتی ہیں تو سورج بھی یونہی چھیڑنے کے لئے آنکھ مچولی کھیلنے لگتا ہے سورج اور بدلیوں کی آنکھ مچولی دیکھ کر تو مجھے اپنے بچپن کی آنکھ مچولیاں یاد آرہی ہیں ۔اور ہی احساس دلا رہی ہیں کہ ہر ایک شئے میں کوئی نہ کوئی ہلکی پھلکی سی شرارت کہیں نہ کہیں ضرور چھپی ہوئی ہوتی ہیں ۔کچھ شرارتیں ہمیں نظر آتی ہیں،کچھ نظر نہیں آتیں اور کچھ ہم محسوس کرلیتے ہیں ۔
مختلف قسم کے پرندے مختلف رنگوں کے ساتھ اپنے اپنے گیت گنگنانے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف اگر بلبل سُریلہ نغمہ چھیڑ رہا ہے تو دوسری طرف کوئل دل لبھا نے والی دُھن ترتیب دے رہی ہے۔یہ دونوں آوازیں تو میرے دل میں اُتر رہی ہیں ۔اور بھی تو چھوٹے موٹے پرندوں کی آوازیں شامل ہیں لیکن ان سب میں نمایاں یہی دو آوازیں ہیں جو دل کے تار بڑی بے قراری سے چھیڑ رہی ہیں اِدھر اُدھر کے لوگ شاید ان کی آوازوں سے تھوڑا سا نیچے کچھ آڑو کے درخت ہیں ۔جس میں پکے ہوئے آڑو صاف دیکھائی دے رہے ہیں کچھ پرندے ان آڑو کے درختوں میں موجود ہیں۔ایک چھوٹا سا لڑکا ان آڑو کے درختوں کی طرف بھاگتے ہوا آرہا ہے اور ہاتھ میں تین چار پتھر بھی ہیں ۔اس نے وہ پتھر آڑو کے درختوں میں موجود پرندوں کو دے مارے جو دنیا و مافیا سے بے خبر نشے میں مست آڑو کھائے جا رہے تھے ، پتھر لگنے کی وجہ سے ایک دم سارے پرندے پھر سے اُڑ کر بھاگ گئے ۔لڑکا شکن زدہ ماتھے کے ساتھ اُڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتے جا رہا ہے پرندے تو خیر اُڑ کر بچ گئے مگر ان کی جگہ آڑو کے دو تین پھل ضرور گر گئے ۔لڑکے نے وہ پھل بڑی ناراضگی کے ساتھ اُٹھا لئے اور بوجھل بوجھل قدموں کے ساتھ روانہ ہوگیا کہ جیسے ابھی کسی بڑی شکست سے دو چار ہوا ہو۔
قریب ہی ایک اور چھوٹا سا لڑکا جھاڑیوں کی اُوٹ میں سے نظر آنے لگا ۔اس کے ہاتھ میں ایک غلیل ہے جو چپکے سے کسی پرندے کے پیچھے پیچھے جا رہا ہے ۔چیڑ کے درخت کے قریب پہنچ کر وہ پنجوں کے بل بیٹھ گیا اور آہستہ سے نشانہ لے کر پرندے کو دے مارا ۔نشانہ شاید پرندے کے پر پہ لگا جس کی وجہ سے وہ گر نہ سکا البتہ لڑکھڑاتے ہوئے اُڑنے لگا اور دور کہیں جھاڑیوں کے پیچھے غائب ہوگیا مگر اس کے ساتھ ساتھ جھاڑیوں کے پیچھے سے ایک صدا آنے لگی !
’’جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سُنی ہے
جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتہ ہے،،
پرندے کو یوں اپنی جان بچاتے ہوئے دیکھ کے مجھے احساس ہورہا ہے کہ ہر جاندار کو جینے کی تمنا ہو تی ہے اور آزادی کا خواہش مند ہوتا ہے ورنہ پرندے کو کیا ضرورت تھی زخمی حالت میں اُڑ کر جان بچانے کی، مگر کچھ ضرورتیں ایسے ہوتی ہیں جو فطرت میں شامل ہوتی ہیں ۔
میرے سامنے ایک پھول سابچہ ایک تتلی کے پیچھے بھا گ رہا ہے جو مختلف رنگوں کے ساتھ منڈلا تی ہوئی بھاگے جا رہی ہے ۔بچہ تتلی پکڑنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے مگر ہاتھوں میں نہیں آرہی ۔اور اِدھر میرا دل میرے ہاتھوں سے نکلے جا رہا ہے اور یہ کہنے پر مجبور کر رہا ہے کہ !
’’تتلی کے تعاقب میں کوئی پھول سا بچہ
ایسا ہی کوئی خواب ہمارا بھی کہیں تھا،،
اُوپر کی طرف ایک شکاری بڑے فاتحانہ قدموں کے ساتھ نیچے کی طرف آرہا ہے ۔ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ میں ذبح کی ہوئی فاختہ جس کی گردن لٹک رہی ہے ۔شکاری کے خندہ پیشانی سے معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے ابھی ابھی ایک بہت بڑا معرکہ سر کر کے آرہا ہو۔ مگر ذبح کی ہوئی فاختہ ، میری بائیں جانب تھوڑا سا اُ وپر ایک جھرنا بڑی دلکشی کے ساتھ نیچے گر رہا ہے اور ایک ندی کی صورت میں بہ رہا ہے ۔گرتے ہوئے جھرنے کی آواز اس قدر مُدھر اور سروں سے بھری ہوئی ہے کہ مجھے مدہوش کئے جا رہی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہنے پہ مجبور کر رہی ہے کہ قدرت کتنی عظیم موسیقار ہے جو کبھی پرندوں کے نغموں کی صورت میں موسیقی کرتی ہے ،کبھی ہواؤں کی دھنیں ترتیب دیتی ہے ،کبھی آبشار کو گنگنانے پر مجبور کرتی ہے ،کبھی سمندری لہروں کی صورت میں اُتار چڑھاؤ سے ہمیں اپنی موسیقی سمجھاتی ہے ،کبھی تو بارش کی آواز سے ہمیں ان کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے ،کبھی بادلوں میں گرجتی ہے تو کبھی آسمان میں چمکتی ہوئی سُنائی دیتی ہے اور کبھی تو ایک گنگناتی ہوئی ندی کی صورت میں مل جاتی ہے۔
یہ قدرت کتنی بڑی موسیقار ہے ۔۔۔۔۔کتنی بڑی، اتنی بڑی جس کا تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا ،قدرت سے بہتر، اعلیٰ اور دلکش سروں سے بھری ہوئی موسیقی کوئی اور ترتیب دے ہی نہیں سکتا ۔
آبشار سے گرتا ہوا پانی جو ندّی کی صورت میں بہ رہا ہے اس کے کنارے پتھروں پر بیٹھی ہوئی کچھ عورتیں کپڑے دھو رہی ہیں اور ساتھ ساتھ گنگنائے بھی جا رہی ہیں ۔ان کے ساتھ شاید ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں جو بڑی معصومانہ ہنسی ہنس رہے ہیں۔ان کی گنگناہٹ میں ایک عجیب سا سُر اور مٹھاس ہے ۔آخر کیوں نہ ہو گا اُوپر سے خالق کی موسیقی اور نیچے مخلوق کی گائیکی جو آپس میں مل کر ایک پُراسرار گیت ترتیب دے رہے ہیں ۔کیا حسن ہے، کیا شاہکار ہے !
میں اس سحر انگیز منظر میں کچھ کھو سا گیا کہ اچانک ناصرکاظمی صاحب چپکے سے کان میں کہنے لگے!
’’حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
دھیان کی شمع جلا کر دیکھو،،
اچانک میری نظر ایک فاختہ پر پڑی جو سرو کی شاخ پر چپ سی بیٹھی ہے۔
کہنے لگے!
فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں
سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو
چمن کی طرف دیکھتا ہوں تو خوشبو غائب
کہنے لگے!
کیوں چمن چھوڑ دیا خوشبو نے
پھول کے پاس تو جا کر دیکھو
کہتے ہیں !
محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا،،
ہوا کچھ تیز سی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے چیڑ کے درخت ایک دوسرے سے ٹکرا کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے ۔ سورج کی شعائیں بھی کچھ مدھم سی ہوتی جا رہی ہیں ۔آسمان میں تیرتی ہوئی شرارتی بدلیاں اب بجائے آنکھ مچولی کے بھاگے جا رہی ہے کیونکہ اب ان کی جگہ کالے بادلوں نے لے لی ہے۔کالے بادلوں نے سورج کو اب مکمل طور پر ڈھانپ لیا ہے۔
میری ناک پہ ایک دو بوندیں بھی گر گئیں جو میں نے بڑی ٹھنڈک کے ساتھ دل میں اُترتی ہوئی محسوس کی ایک عجیب سی نشیلی خوشبو پھیلی جا رہی ہے جی چاہتا ہے کہ اس خوشبو میں رچ بس جاؤں ۔ کہیں چند ہی لمحوں میں موسلادھار بارش شروع ہوگئی ۔ قدرت کی موسیقی بھی اپنے جوبن پر ہے اور بڑی گرج چمک کے ساتھ موسیقی ترتیب دے رہی ہے۔
یہ بارش کا موسم بھی عجیب موسم ہوتا ہے ۔ ہمیں شعور کے زریعے تخت الشعور سے ملاتا ہے اور یوں تخت الشعور سے ہوتے ہوئے لاشعور تک پہنچا دیتا ہے اور پھر لاشعور میں ہمیں ایسی یاد،یاد دلاتا ہے جسے یاد رکھنا ہم بھول چکے ہوتے ہیں ۔
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
یاد آئیں کچھ ایسی باتیں !
میں جنہیں کب کا بھول چکا تھا
اور پھر!
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
اور یوں!
ایک منظر چھپ گیا دوسرا نظر آنے لگ گیا ۔۔۔۔
’’محروم تماشا کو پھر دیدہ بینائی دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کہ بھی دکھلا دے
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشان کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شر مادے،،

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *