گلگت بلتستان میں انتخابات ہونے کو ہے عوام سے ووٹ کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، پارٹی لیڈرز امیدواران گلی گلی میں گھوم گھام رہے اور عوام کی خیر خواہی کیا غم انہیں کھایا جارہا ہے اور عوام کے سامنے میڈیا کے ذریعے جمہوریت کا ڈھنڈورہ بھی پیٹا جاتا ہے لیکن یہ جمہوریت کے نام پر سرمایہ داروں کا سٹیج ڈرامہ ہے جو عوام کو طفل تسلی کے طور پر کھیلا جاتا ہے ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو تو جمہوریت میں اولین چیز عوام کا باشعور ہونا ہے،ووٹر کو معاشی طور پر مضبوط ہونا چائیے اور ان کی سوچ آذاد ہونی چائیے جس قوم کے ووٹر ادہار لیکر چینی لینے کیلئے سار دن یوٹیلیٹی سٹور کے سامنے کھڑے رہے اور پھر بھی انہیں آٹا نہ ملے اور شام کو ان کو اپنے گھر کو ناکا م لوٹنا پڑے ان کی کیا رائے ہوگی اور ان کی رائے کو کیسے آذاد کہاجاسکتا ہے اور ان کا شعور کیسے بلند ہوسکتا ہے ;238;اور ان کی ووٹ کی حیثیت ہی کیا ہے;238; عوام میں یہ مشہور ہے کہ عالمی سامراج ایک کو ہٹا کر دوسرے کو لانا چاہتا ہے تو لائے اس سے عوام کا کیاواسطہ;238; امریکہ کو اگر جمہوریت اتنی ہی پیاری ہے تو پھر مشرق وسطیٰ میں جمہوری حکومتیں کیوں نہیں قائم نہیں کرتا ;238;اور وہاں کیوں شاہی حکومتوں کی پشت پناہی کررہا ہے پورے مشرق وسطیٰ میں اسے ڈکٹیٹر صدام ہی نظر آیا کیونکہ وہ اسکے مفاد پورے نہیں کرتا تھا لہذا اس نے طاقت کے بل بوتے پر اس کی حکومت ختم کردی ۔ 77;247;ء کی تحریک سے عوام جو کہ ہمیشہ امریکہ مخالف رہے ہیں انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کی تحریک کے نتیجہ میں بھٹو جیسی امریکہ مخالف شخصیت کی حکومت چلی گئی اور ضیاء جیسی امریکہ کی پسندیدہ شخصیت کی حکومت آئی جس نے عالمی سطح پر طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں کرنے میں اہم کردار ادا کیا اب وگ یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا تبدیلی بزریعہ لیکشن ;238;اور وہ تبدیلی کے منتظر ہیں جو کہ مروجہ سرمایہ داری نظام کو تبدیل کردے ۔ وہ اب چہروں کی تبدیلی کی نہیں نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں ۔ اب سیاسی جمہوریت سے پہلے معاشی جمہوریت کا سوچتے ہیں ۔ اور اب معاشی عدل کی بات کرتے ہیں طبقاتی تقسیم کے خاتمے کی بات کرتے ہیں ‘‘ ۔ یہ ہیں ایک عام آدمی کے خیالات ہیں جو ایک محب وطن ہیں اورپرامن شہری ہیں اور عام آدمی مروجہ سیاست سے بے زار ہیں اور صرف ووٹ کاسٹ کرنے کی حد تک وہ موجودہ سیاست میں ملوث ہیں ۔ عوام کے خیالات کے ترجمان یہ جو نکات اٹھائے گئے ہیں ممکن ہے کہ وہ کسی کے طبع پر گراں گزرے اور انکے خیالات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے جو سب کا حق ہے اور اتفاق بھی ۔ اور یہ جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان پر غور کرنا اور حالات اور واقعات کا بصیرت اور گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنا اورماضی کے آئینے میں حال کا مشاہدہ کرنا اور پھر اس کے تناظر میں مستقبل کیلئے لاءحہ عمل بنانا اپنے نصب العین کو پانے کیلئے جد وجہد کرنا بھی ان کے شعور کا تقاضا ہے ۔

اس امر کا جائزہ لے نا چائیے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور قیام پاکستان کے مقاصد سے پاکستانی عوام کو دور رکھنے کے درپے ہیں کیا اس بھید کو پانے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے ;238; اور یہ بات بھی مد نظر رکھنی چایئے کہ جو عناصر پاکستان کو کے درپے ہیں ان کی اس کوشش سے پورا ایشیا اس کے لپیٹ میں آسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ہی ایسی ہے اور قدرت اس خطے پر بھت مہربان ہے اور اس تدبیر کی فکر بھی کرنی چائیے کہ پاکستان کو جس دلدل میں دھکیلا گیا ہے اس کی سبیل کیا ہے;238; اور ایسا کب تک ہوتا رہیگا;238;ارباب حل وعقد کو بھی اس پر غور کرنا چائیے کہ عوام کس پریشانی میں مبتلا ہیں اور اور ان کے حقیقی مسائل کیا ہیں ;238; ۔ اور آج کے معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر قومی وحدت کا مظاہرہ وقت کی ضرورت ہے جس کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ کیونکہ یہاں مسئلہ غربت کا ہے یہ وقت ہے کہ غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جہاد کیا جائے اور استعماری قوتوں کے عزائم کو سمجھ کر قومی مفادات کے مطابق پالیسیاں وضع کی جائیں تا کہ پاکستان دنیا کا قابل رشک ملک ابھر کر سامنے آئے اور سامراج کی حکمت عملیا ں ناکام ہوجائیں ۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *