ضمنی الیکشن اور اس کے بعد سینٹ اور سینٹ کے چئیرمین کے الیکشن اور اس دوران ایک دوسرے پر دھاندلی اور ممبران کی خرید و فروخت کے الزامات نے ملک کے عام آدمی کو پریشان کر دیا ہے۔وہ یہ سوچتے ہیں کہ آج یہ ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیںکل یہ ایک صفحے پہ ہوں گے اور عوام کو اس افراتفری ، جلسے جلوسوں، شارٹ مارچ اور لانگ مارچ کے اثرات کو بھگتنا ہوگا۔ یہ جو مسلط نظام ہے اس کا یہی پیغام ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ، آج کاحریف کل کا حلیف اور کل حریف آج کا حریف گویا یہ ان کا ایک کھیل ہے۔
واقعہ مشہور ہے کہ پنجاب میں ملک خضرحیات ٹوانہ کے خلاف قیامِ پاکستان سے چند ماہ قبل چلنے والی سول نافرمانی کی ایک تحریک میں جب ایک پارٹی نے انکے خلاف ’ ’ ۔۔۔۔۔کتا ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگوائے اور پھر سر ظفراللہ خاں کے ذریعے جب خضرحیات کو استعفیٰ اور مسلم لیگ سے تعاون کا پیغام دیا گیا اور خضرحیات پنجاب کی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے اور یہ خبر خضرحیات کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پہنچائی گئی اوریہ مشہور کردیا گیا کہ خضرحیات نے مسلم لیگ جوائن کرلی ہے تو وہاں سٹیج سے ایک نعرہ بلند ہوا کہ ’’ابھی ابھی خبر آئی ہے، خضر ہمارا بھائی ہے‘‘۔
وزیر اعظم پاکستان نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب سے اپنے خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ: ’’کسی بھی سیاسی جماعت کو تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ حکومت میں آئے تو تین ماہ صرف معاملات کو سمجھنے میں لگ گئے۔ اب ہمیں سسٹم کو بدلنا چاہیے‘‘۔
وزیر اعظم کا یہ بیان اعترافِ حقیقت ہے یا اعترافِ شکست اس سوال کا جواب ہم اپنے قارئین پہ چھوڑتے ہیں ۔ اس اعتراف کا مظاہرہ اس سے قبل ملک کے ایک سابق چیف جسٹس نے بھی کیا تھا کہ ’’ہم بہ حیثیت ادارہ قوم کو عدل و انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘ اور ایک سابق وزیراعظم نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان دے کر اعترافِ شکست کیا تھا کہ’’یہاں پانچ سال کے لیے ہم لوگ آتے ہیں، ہمیں کچھ خود نہیں سمجھ آتی اور وقت گزر جاتا ہے، لیکن تھوڑی تھوڑی سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے‘‘۔ ایک موقع پر وزیر اعظم صاحب نے خود میڈیا پر آکر اعلان کیا کہ اگلا بحران گیس کا ہوگا۔
بانی پاکستان نے بھی ’’اعترافِ حقیقت‘‘ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’میری جیب میں کھوٹے سکے تھے‘‘! اس نظام کا مظاہرہ اس وقت بھی سامنے آیا جب ایک سابق چیف جسٹس نے شراب بر آمد کیا اور مقدمہ چلنے کے بعد وہ شہد میں تبدیل ہوا۔ لاہور میں قائد اعظم بزنس پارک کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے صنعت کار یا کاروباری افراد کے لیے انتہائی مشکل نظام ہے جس کے ہر مرحلے میں رشوت ملوث ہے، اگر پیسہ ہے تو رشوت دے کر سارے کام کیے جا سکتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہوگی کہ نظام کو درست کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ حکومتی ادارے یا نظام محض چند دن میں ٹھیک نہیں ہوسکتے لیکن ان کی اصلاحات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
ایک موقع پرسابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ہم نظام کی خرابی کی بات کر رہے ہیں، اقتدار کی نہیں۔ اور نعروں اور ایشوز کی سیاست کیلئے مشہور سیاسی جماعت کے قائدین تو ہمیشہ اس نظام کے خلاف بولتے رہتے ہیں اور اس کو بوسیدہ قرار دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمیشہ چمٹے رہتے ہیں خواہ ایوان میں ان کی ایک ہی نشست کیوں نہ ہو۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی منزلِ تک نہیں پہنچ پاتیں؟ اور ترقی کی رفتار معکوس ہے ۔ چناںچہ ہم نے دیکھا کہ بہ ظاہر کوشش کے باوجود حکومت کوششوں کے چینی اور آٹے کے بحران سے نجات حاصل نہیں کرسکی۔المیہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل گیا اور روپئے کے مقابلے میں ٹکہ عالمی مارکیٹ میں مستحکم ہو رہا ہے ۔آٹا، چینی، تیل، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اور گیس ایسی انسانی ضروریات ہیں، جن کی فراہمی پاکستان میں سال کے دوران کم از کم ایک دفعہ بحرانی شکل ضرور اختیار کر لیتی ہے اور عوام کو معاشی جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات اور بیانات نظام کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے ۔
استحصال پر مبنی سامراجی آلہِ کار ، فرقہ وارانہ مذہبی اور مئورثیت پر مبنی گروہی سیاسی نظام زبر دستی عوام پر مسلط ہے جس کے نتائج ہولناک ہیں۔ اس نظام سے جن کے مفادات وابستہ ہیں انہوں نے مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس مسلط مافیا نے اپنے بین الاقوامی سامراج کی سرپرستی میںجو کھیل کھیلا ہے اس کے نتیجے میں ملک مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر فرقہ وارانہ فسادات ، عالمی طاغوت کی خوشنودی کے لیے فتویٰ فروشی اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا خون اور جن کو مجاہدین قراردیا جاتا رہا ان کو عالمی سامراج کی ایماء پر دہشت گرد قرار دینا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ وقت کی دھول چھٹنے کے بعد سب کچھ نظر آنے لگا ہے تو یہ شرمندہ ہوکر قوم سے اس جرم پر معافی مانگنے کے بجائے اپنے پرانے حلیفوں اور موجودہ حریفوں کو دھمکانے کے لیے راز فاش کرنے کی غرض سے یہ بیانات داغنے لگے ہیں۔
فرقہ واریت ایک المیہ ہے ایک مسلک دوسرے مسلک کا دشمن ہے اور عدم برداشت کی فضا قائم ہے بلکہ اب تو مسلک کے اندر بھی تقسیم اور لڑائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے پانچ تعلیمی بورڈ سرکاری طور پر رجسٹرڈ تھے اب پانچ مذید تعلیمی بورڈز کی منظوری ہوگئی ہے اب ہر مسلک کو دو تعلیمی بورڈز ایک دوسرے کے مقابل ہوں گے اور آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتے گے۔
اس نظام سے وابستہ عناصر کی بقاء اس فاسد نطام سے وابستہ ہے اوروہ اس کو قائم اور دائم رکھنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں اور نعرے ایجاد کرتے ہیںاور عوام تماشا کرتے ہیں بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ آخر کب تک بدبودار نظام کے گنگا میں نہانے والوں کے دن گنے جائیں گے؟ کب عوام کو ان کے حقوق ملیں گے؟ کب فرقہ واریت اور فتویٰ فروشی سے نجات ملے گی ؟ کب عدل و انساف کا بول بالا ہوگا؟ وہ یوم نجات کب منایا جائیگا جب بھوک و افلاس کا خاتمہ ہوگا ؟۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *