کرونا وائرس کا غلغلہ پوری دنیا میں عالمی میڈیا اس معاملے کو بہت اچھال رہا ہے گویا چائے کی پیالی میں طوفان برپا ہے ۔ یہ شور ہے کہ چین کے شہر وہان سے شروع ہونے والا کرونا وائرس نے پورے چین کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، لوگوں کے کاروبار بند ہو گئے ہیں ، لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ تاثر غلط اور پروپگنڈہ ہے اور چین کی معیشت کے خلاف عالمی جنگ کا ایک حربہ ہے اور یہ سامراج کا پرانا وطیرہ بھی ہے اور عالمی سامراج اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے میڈیا کو خوب استعمال کر رہا ہے کیونکہ عالمی میڈیا کی ڈوری سامراج کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس سے ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں اوربڑی تعداد میں لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیںمگر چین نے اس بیماری کے خلاف جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ قابل تحسین ہیں اور چینی صدر نے بر وقت اعلان کر دیا کہ ہم کرونا وائرس کو شکست دیں گے اور اب تک ان کی حکومت نے دنیا کے سامنے یہ کر کے بھی دیکھایا ہے۔ میڈیا پر یہ خبریں بھی موجود ہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلنے کے پیچھے امریکی سازش کار فرما ہے۔اور مبینہ طور پر کچھ ایسے ثبوت ملے ہیں جس کے بعد ان کا الزام ہے کہ امریکی سازش کے تحت کرونا وائرس چین میں پھیلا ہے۔
امریکہ اور دیگر ان کے ہمنوا ممالک کرونا وائرس کے خلاف تو شور مچا رہے ہیں مگر دنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ایڈز جو مغرب سے در آمد شدہ ہے اور لاکھوں لوگ ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور لاکھوں ھلاک ہو رہے ہیں کیا عالمی میڈیا نے اس کے خلاف اتنا شور مچایا ہے؟ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پاکستان میں ایڈز میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔اسی طرح ڈینگی، ملیریا اور کانگو کے علاوہ متعدد بیماریاں موجود ہیںلیکن فی الوقت اس بیماری کو بہت اچھالا جا رہا ہے اور چین میڈیا کے نشانے پہ ہے اور اسے ایک اچھوت ملک بنانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
یہ امر قابل تحسین ہے کہ پاکستان نے مکمل طور پر چائنا کی مدد کی اور پاکستانی سینٹ سے چین سے اظہار یک جہتی کیلئے قرار داد بھی پاس ہوئی اور پاکستان نے اس بیماری سے نمٹنے کیلئے اقدامات میں سب سے زیادہ چین کی مدد کی اور یہ ثابت کیا کہ پاک چین دوستی لازوال ہے اور دونوں ممالک ہر مشکل کی وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ اور پاکستان نے چین پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو چین سے نہ نکال کر چین پر اعتماد کیا اور اس اعتماد نے پاک چائنا دوستی کو اور مضبوط کیا۔توقع ہے کہ چین اس بیماری پر جلد قابو پالے گا اورسامراج کے قائم کردہ خوف کے سائے اور اس کے مسلط کردہ پروپگنڈے کا خاتمہ ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کی نوعیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ کرونا وائرس کے خلاف عالمی میڈیا کا پروپگنڈہ بھی چائنا کی معیشت کو کمزور کرنے کیلئے ایک جنگ کا حصہ ہے۔ پاکستان میں جو عناصر بغاوت اور دہشت گردی میں مصروف ہیں اس میں کوئی ابہام نہیں کہ یہ سب کچھ سامراج کی کارستانی ہے جس طرح افغان جنگ میں وہ ڈالر اور اسلحہ تقسیم کرتا تھا اب بھی وہ اپنے آلہ کاروں میں یہ سب کچھ تقسیم کرنے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ پاکستان کو الجھانے اور لگائی بجھائی میں مصروف ہیں اگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کبھی بہتری بھی آئی ہے تو اسکے ڈورے بھی سات سمندروں کے پار سے ملتے رہے ہیں چونکہ روز اول سے ارباب اقتدار نے واشنگٹن کو اپناسیاسی قبلہ بنایا او ر پینٹا گون اور وہائٹ ہائوس کو مرکز اختیار کیا جس کا شاخسانہ یہ نکلا کہ ہم پڑوسی ممالک کے لئے اجنبی بن گئے ہمارا شمار آلہ کاروں میں ہونے لگا اور اور پڑوسیوں کی نظروں ہم ناقابل اعتبار ٹھر گئے اس حوالے سے ہمسایوں کے لئے بھی ہم ناقابل قبول ہوگئے اور عوام اور حکمرانوں کے مابین بھی دوری پیدا ہوئی اور اسے جو نتائج پیداہوئے وہ آج سب کے سامنے ہیں ۔بلوچستان کی شورش قبائلی علاقہ جات کی موجودہ صورت اور خون ریزی اور شمالی علاقہ جات میں شورش ملک اور قتل اور مقاتلے سامراج کی کارستانی ہے وہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے اس بساط کو لپیٹنے اور ملک عدم استحکام کی طرف لے جانے کیلئے چالیں چل رہاہے ۔
ٰیہ امر قابل تحسین ہے کہ موجودہ وقت میں حالات نے کچھ پلٹا کھایا ہے اور اہل اقتدار طبقہ بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کے سلسلے میں عوام کی بولی بولنے لگا ہے اور اسکا لہجہ بھی کچھ تبدیل ہوگیا ہے اور ایسا محسوس ہوا ہے کہ مقتدر طبقہ بھی اپنا وزن عوام کے پلڑے میں ڈال رہاہے پاک چائنا دوستی کے تناظر میں دونوںطرف سے بھی اسے بیانات آرہے ہیں کہ یہ صدی ایشیا کی صدی ہے۔ لہجے کی یہ ایک اچھی تبدیلی ہے جس کا فائدپورے ہ خطے کو ہوگا ۔ ا س سلسلے میں ترکی کے صدر کادورہ پاکستان اور ملاشیا کے صدر مہاتیر محمد کا کردار بھی اہم ہے۔اور ایران بھی موجودہ درپیش حالات میں پاکستان کے کردار سے مطمئن نظر آتا ہے اور روس کے ساتھ بھی آذاد تجارت کے معاہدے پر بات ہوئی یہ اس کی علامت ہے کہ پیش قدمی مثبت ہے او ر اگر ہمارا اور خطہ کے دیگر ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں بہتری لانے کا یہ عمل جاری رہا تو اس سے ملک کی داخلی صورت حال بھی اچھی ہوگی اور سیاسی اور معاشرتی استحکام حاصل ہوگا اور خطے پر بھی مثبت اثر پڑیگا لیکن راستہ بڑا کھٹن اور دشوار گزار ہے اور رکاوٹیں زیادہ ہیں ۔
درپیش عالمی منظر نامے میں تبدیلی کے تناظر میں حالات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اعتماد میں اضافہ کیا جائے اور اپنے سرحدوں مضبوط بنایا جائے اور آپس کے اختلافات کو کم سے کم کیا جائے تاکہ سامراجی عزائم کا توڑ ہوسکے۔
چین کی مصنوعات کا دنیا کی منڈیوں پر قبضہ ہے اور اسی وجہ سے چین امریکہ کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے اور وہ سی پیک جیسے عالمی منصوبے پر بھی بڑا سیخ پا ہے اور چین کے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے رجحان کو ا پنے لیئے خطرہ اور مستقبل کی رکاوٹ سمجھتا ہے اسلئے وہ پاکستان اور خاصکر جہاں چائنا کا عمل دخل ہے وہاں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شورش برپاکرتاہے اور کوشش اس کی یہ ہے کہ کسی طرح اس منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے۔یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ پاک فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیںاور شعوری طور پر حالات کا مقابلہ کیا جارہا ہے اور نہایت ہوشمندی ، بردباری،اور سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے سامراج کے عزائم کو خاک میں ملایا جا رہا ہے ۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *