میڈیا نے عوام کو باشعور بنا دیا ہے۔ عوام اب سوچتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور سوال بھی اٹھاتے ہیںکہ ہمارے سیاست دان ہمارے ووٹوں پر کروڑوں کے سودے کرتے ہیں ،عوام کو بیچتے ہیں اور لوٹے بنتے ہیں۔عوام کے غیض و غضب میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جذبات میں شدت آگئی ہے۔ اور جس پر لوٹا بننے کا الزام لگتا ہے تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اب تو لوٹوںکی باقاعدہ درگت بنانے کی روایت چل پڑی ہے اور تواتر کے ساتھ عوام ان پر حملہ آورہو رہے ہیں۔اگر چہ سیاست دانوں کی جوتے کھانے کی روایت پرانی ہیںمگر ماضی میں شاز و نادر ایسے واقعات رونما ہوتے تھے مگر پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے ایسے واقعات میں شدت آگئی ہے اور تواتر کے ساتھ اس قسم کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اور لگتا ایسا ہے کہ آنے والے الیکش مہم میں ایسے واقعات میںمذید شدت پیدا ہو گی لہٰذا سیاست دانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
آخر کیا وجہ کہ لوگوں کا پارہ ایک دم چڑھ گیا ہے اور انہوں نے سیاست دانوں کے خلاف جوتیاں اٹھا لی ہیں؟ اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو جوتے پھینکنے کی روایت ایک عمل کا رد عمل ہے اور سیاست دانوں کے خلاف لوگوں کی نفرت کی علامت ہے ۔چونکہ سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور میڈیا اسے براہ راست دیکھا تا اس کا اثر ورکروں پر بھی پڑتا ہے اور شدید غصہ کو وہ جوتا اور سیاہی پھینکنے کی صورت میں نکاالتے ہیںاور سیاہی پھینک کر ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور درگت بھی بناتے ہیں۔
موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جھوٹ اور سچ میں تمیز اور کھوٹے اور کھرے کی پہچان مشکل ہے۔ بس عوام کو قومی مفاد کا جھانسہ دے کر ذاتی مفادات کی سیاست میں الجھایا جا رہا ہے۔ عوام سے ، جھوٹے وعدے کر کے انہیں لارے لگا کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔ذاتی مفاد حاصل کرنا ، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ، اچھے دنوں کی آس دلا کر خود ، مشکل آنے پر منظر سے غائب ہو جانا ، عوام کو اپنی انگلیوں پر نچانا یا پھر وعدے کر کے مکر جانا ہے یہ ہماری سیا ست کاطرہ امتیازز ہے۔ تہتربرس گزرنے کے باوجود عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ گزشتہ پی پی پی دور اور نون لیگ کے ادوارمیں مفاہمت اور ملکی مفاد کے نام پہ اس ملک کا جو حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔جھوٹ کون ہے اور سچا کون ہے؟ اور کھوٹے اور کھرے میں فرق کیا ہے عوام کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ بس عوام کو قومی مفاد کا جھانسہ دے کر ذاتی مفادات کی سیاست میں الجھایا جا رہا ہے۔عوام سے ، جھوٹے وعدے کر کے انہیں لارے لگا کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔
ملک کی معیشت آخری سانوں پر ہے اور ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہپاکستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے وہ ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ، لوگ مر رہے ہیں تو مرتے رہیں ، دشمن کے ہاتھ ہماری شہ رگ تک پہنچ جاتے ہیں تو پہنچتے رہیں۔ سیاست کے اس کھیل کو جمہوریت کا عنوان دیا گیا ہے۔ذاتی مفاد حاصل کرنا ، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ، اچھے دنوں کی آس دلا کر خود ، مشکل آنے پر منظر سے غائب ہو جانا ، عوام کو اپنی انگلیوں پر نچانا یا پھر وعدے کر کے مکر جانا ہے یہ ہماری سیاستکا طرہ امتیازز ہے۔ ستربرس گزرنے کے باوجود عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ ۔
ہمارا ملک نظریاتی کشمکش سے دوچار ہے ایک طرف اس نظام کی بقا کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نظام کو خطرہ ہے اور کبھی کبھی کہا جاتا ہے کہ کہ یہ نظام کرپٹ ہے ملک کے نظام کو چلانے والوں کے متعدد چہرے ہیں ہر چہرے کی جداگانہ شناخت ہے۔ اور اس نظام کے سارے ڈانڈے کیپٹل ازم سے ملتے ہیں جسے میکائولی، ایڈم اسمیتھ اور لارڈ میکالے نے تشکیل کیا ہے ۔ اقتدار اور حکومت کو چند افراد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، کمزورکی آواز دبائی جارہی ہے ، اور غریب کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ، کرسی اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے کہ ان کے طریقہ کار پر کوئی سوال اٹھاسکے ، ان سے کوئی سوال کرنے کی جرات کرسکے ان کے نظام کے خلاف آواز بلند کرسکے ، یہی صورت حال فرعون کی تھی ، نظام چلانے والوں کو یہ ہر گز منظور نہیں ہے کہ عوام کی حالت بہتر ہو اور ملک ترقی کرسکے ۔غریبوں اور امیروں کے درمیان خط امیتاز قائم ہے، علاقائی اور نسلی عصبیت کو قابل فخر بنایا گیا ہے۔
دنیا کی تاریخ انسانی میں فرعونی نظام سب سے بدترین نظام حکمرانی کہلاتا ہے، فرعونی نظام میںچند افراد پوری دنیائے انسانیت کو غلام بنائے ہوئے تھے ، اس دور کے انسانوں اور جانورں میں کوئی فرق نہیں تھا، اربا ب اقتدار اور عوام کے درمیان کوئی تعلق نہیں تھا ، حکمراں طبقہ کا اپنے بارے میں تصور تھاکہ دنیا کی تمام نعمتیں صرف اسی کی آسائش کیلئے ہے ، کائنات اللہ تعالی نے صر ف اسی کیلئے بنائی ہے ، آسمان سے لیکر زمین تک کی تمام چیزیں صرف انہیں کے قبضہ قدرت میں ہے دوسری طرف اپنے ماسوا کے بارے میں ان کا نظریہ تھاکہ یہ سب ان کی غلامی اور خدمت کرنے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں، عزت اور شرافت کی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ، انہیں ان کے قریب بیٹھنے ، دولت حاصل کرنے ، کمانے اور حصول اقتدار کی کوشش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
فرعونی نظام کے تناظر میں دیکھا جائے تویہ نظام شرمناک بھی ہے اور انسانیت سوزبھی ، یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں غریبوں کیلئے کوئی مقام نہیں ہوتا ہے، اس نظام میں حکومت اور اقتدار میں عوام کی شراکت نہیں ہوتی البتہ پروپگنڈہ بہت ہوتا ہے ، دولت پر چند افراد کا قبضہ ہوتا ہے، مورثی سیاست کی وجہ سے شرافت اور عزت کا کاپی رائٹ مخصوص افراد کو دیا جاتا ہے ، چند مخصوص افراد کے سوا کسی اور انسان کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ شرافت اور عزت دار کہلا سکے یا اس طرح کی کسی بھی خصوصیت سے وہ قریب ہوسکے، اسی بنا پر چند افراد کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔حالانکہ انسانیت ، شرافت ، دولت ، اقتدار اور حکومت کسی کی جاگیر نہیں ہے ،یہ چیزیں صرف چند انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے ، پوری انسانیت لائق احترام ہے ،تمام بنی آدم کو عزت واحترام سے جینے کا حق ہے۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *