صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع الائی میں گذشتہ شام ایک دیسی ساختہ چیئر لفٹ کو 900 فٹ کی بلندی پر پھنسے ہوئے اب 13 گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا۔
پہاڑوں میں میں گھری اس چیئرلفٹ کے گرد روشنی تیزی سے کم ہونے لگی تھی اور رفتہ رفتہ اس میں موجود بقیہ افراد کو ریسکیو کرنے کی امید بھی۔
فوج اور ایئرفورس کی جانب سے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کیے گئے سلنگ آپریشن میں صرف ایک بچہ ریسکیو کیا جا سکا تھا اور اب ان کے لیے مزید آپریشن جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔
ایسے میں اچانک ٹی وی سکرینز اور سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہوئیں جنھوں نے اب اس آپریشن کا بیڑا مقامی افراد کی درخواست پر اٹھا لیا تھا۔
یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بشام کے رہائشی صاحب خان تھے جنھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک عارضی ڈولی تیار کر کے بچوں کو ریسکیو کرنے کی ٹھانی۔
انھوں نے بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے گذشتہ شام کی ڈرامائی صورتحال کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’شام کو جب اندھیرا چھا گیا اور ہیلی کاپٹر چلے گئے تو اس وقت آلائی کی جن خواتین نے مجھے فون کر کے بلایا تھا نے کہا کہ اب میں آپریشن کروں۔
’مغرب کے بعد میں نے اپنا آپریشن تقریباً سات بجے شروع کیا تھا اور پہلا بچہ واپس کنارے پر پہنچا دیا تھا۔‘
صاحب خان اور ان کا خاندان پشت در پشت لفٹ بنانے کا کام کرتا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک چھوٹی سے کمپنی بنا رکھی ہے جس کو یہ کوکھا اینڈ انجینیئرنگ کمپنی کہتے ہیں۔
یہ کمپنی رجسٹرڈ تو نہیں لیکن لفٹ لگانے اور بنانے کے علاوہ دشوار گزار مقامات پر سامان پہنچانے اور تعمیراتی کام میں لفٹ کا استعمال کرنے میں معاونت دینا ان کا پیشہ ہے جس کو یہ اپنی ’مزدوری‘ کہتے ہیں۔
تاہم جب بھی کسی بھی جگہ پر کوئی ایسا حادثہ رونما ہو تو یہ خدمتِ خلق اور انسانی جان بچانے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔
صاحب خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس ڈرامائی مکالمے کی تفصیلات بتائی ہیں جو ان کے اور ڈولی میں موجود افراد کے درمیان ہوا۔
صاحب خان جب زپ لائن کے ذریعے متاثرہ ڈولی تک پہنچے تو ان کے لیے سب سے بڑی مشکل ان افراد کو اپنے ساتھ آنے کے لیے منانا تھا۔ 900 فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹی سی غلطی بھی ان کی جان خطرے میں ڈال سکتی تھی۔
صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ پھنسے ہوئے افراد کے پاس پہنچے تو ڈولی میں موجود افراد انھیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’کم عمر بچے تو بالکل چپ تھے۔ ایک ان میں سے تھوڑا بڑا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم کدھر سے پہنچے ہو، زمین سے آئے ہو یا آسمان سے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کو میں نے بتایا کہ میں نے چھوٹی لفٹ لگائی ہے اس کے ذریعے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ کیوں مرنے کے لیے آ گئے ہو۔‘
صاحب خان اس ڈرامائی گفتگو کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس بچے کو پہلے لانا چاہتا تھا جس کی طبعیت زیادہ خراب تھی لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ تھا کہ یہ بچے بہت ڈر رہے تھے۔
صاحب خان بتاتے ہیں کہ اس سے قبل جب ہیلی کاپٹر فضا میں چکر لگا رہا تھا تو اس کی تیز ہوا سے بھی جب لفٹ حرکت کرتی تھی تو یہ بچے خاصے خوفزدہ ہو جاتے تھے۔
صاحب خان جس چھوٹی سی لفٹ میں وہاں آئے تھے یہ بچے اس میں بیٹھنے سے بھی ڈر رہے تھے۔ ’وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس لفٹ پر نہیں بیٹھتے یہ گر جائے گی۔ اس پر میں نے ان کو حوصلہ دیا اور ان سے کہا میں ان کے ساتھ ہوں۔
’اگر اس میں خطرہ ہوتا تو میں کیوں لفٹ میں آتا اور اس طرح اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بس تھوڑی سی کوشش کے بعد جس بچے کی طبیعت سب سے زیادہ خراب تھی اس کو لفٹ کے ساتھ باندھا اور واپس پہنچا دیا تھا
صاحب خان اپنے کام کے حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’حادثہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ میں اور میرے باپ، دادا اور ان کے باپ دادا بھی یہ کام کرتے تھے۔ میرے بچے بھی یہ کام سیکھ رہے ہیں۔ میں نے اور میرے بھائیوں نے سکول میں نہیں پڑھا تھا بس یہ ہی کام سیکھا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کشمیر سے لے کر تقریباً سارے خیبر پختونخوا میں اس طرح کے آپریشن کیے ہیں۔ لفٹیں بنانے والے تو بہت ہیں مگر ریسیکو آپریشن کوئی نہیں کرتا۔
’اکثر اوقات ایسے واقعات اور حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔ مجھے اب یاد نہیں کہ میں نے کتنے آپریشن کیے ہوں گے۔‘
صاحب خان کا کہنا تھا کہ ’مگر ایک چیز اچھے سے یاد ہے کہ کبھی بھی کسی کی جان بچانے کا معاوضہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی توقع رکھی۔‘
’فی سبیل اللہ یہ کام کرتے ہیں۔ ہاں اس آپریشن میں ہمیں آرمی والوں نے انعام کے طور پر پیسے دیے ہیں اور ہم نے ان ہی کا سامان استعمال کیا تھا۔‘
صاحب خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ہمارے باپ دادا نے یہ نصیحت کی تھی کہ جہاں بھی جس جگہ بھی ایسا معاملہ ہو پہنچ جائیں اور ان لوگوں کی مدد کریں۔
’اس لیے ہمیں جہاں سے بھی بلاوا آتا ہے، ہم چل پڑتے ہیں اور جو ممکن ہوتا ہے کرتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ اس طرح انسانیت کی خدمت کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *