میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
خانقاہ عالیہ رحیمیہ کے مسند نشین اور حضرت شاہ عبد القادر رائیپوری ؒ کے خلیفہ مجاز اور حضرت شاہ عبد العزیز رائیپوری ؒ فرزند پیر طریقت ، رہبر سیاست حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کو انقلاب کے داعی کے طور پریاد رکھا جائیگا انہوںنے اپنی انتھک محنت سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے اور ایک عظیم انقلابی جماعت کی بنیاد ڈال کر کے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے ہیں بلاشبہ وہ دور حاضر کے عظیم انقلابی لیڈر تھے ایک ایسے لیڈر جنہوںنے فاسد نظام سے ٹکر لی اور ہر قسم کے حالات کا جرات اور بہادری سے مقابلہ کیا ۔جدوجہد مسلسل ان کی خمیر میں شامل تھی فی زمانہ وہ انقلابیوں کے سالار تھے اور دور حاضر کی نئی نسل کیلئے وہ امید کی کرن اور مثال تھے کیونکہ ان کے خیالات بلند تھے اور عزم جواں تھا اور ان کے نظریات میں نوجوانوں کیلئے کشش تھی ان کی علمی ،روحانی اور سماجی خدمات نے ان کو لازوال شخصیت بنادیا ہے جو خود تو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے مگر ان کے نظریات، افکار اور خدمات زندہ ہیں ان کا لگایا ہوا پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے اور ان کی مسلسل محنت نے پاکستان بھر کے نوجوانوں کو شعور وآگہی کا پیکر بنادیا ہے۔
حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ دل ودماغ فتح کرنے کا ہنر جانتے تھے جو ان سے ایک مرتبہ ملتا تو ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا اور آج ان کی زندگی نو آموز طالب علموں کیلئے مشعل راہ ہے اور شعور کا جو سفر انہوںنے شروع کیا تھا وہ کاروان بن گیا ان کی زندگی حقائق، مشکلات اور جدوجہد سے عبارت ہے وہ ساری زندگی ظلم اور جبر کے نظام کے خلاف جدوجہد کرتے رہے باطل نظام اور اس نظام کے آلہ کاروں سے لڑتے رہے اور باطل نظام کے خلاف نوجوانوں کو منظم کرتے رہے۔ ان کی جدوجہد کا تسلسل حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تحریک سے جڑتا ہے ان کا کمال یہ ہے کہ انہوںنے کالج اور مدرسہ کا تعلق بھی آپس میں جوڑا ملا اور مسٹر کے تمیز کو ختم کیا اور اس طرح حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے مشن کی تکمیل ہوئی۔
انقلابی بنیاد پر جماعت کی تشکیل کرنا ایک مشکل کام ہے اور خاص کر ہمارے معاشرے میں جہاں فاسد نظام کے بد اثرات نے انسانی ذہنوں کو بھی اپنے اثرات بد سے آلودہ کیا ہے مفاد پرستی کے جراثیم پھیلا دئے ہیں اور مایوسی کا مرض عام کر دیا ہے اور لوگوں کے عقل و شعور پرسامراجی میڈیا نے تالے لگادئیے ہیںاور ان کا مقفل شدہ دماغ مکمل طور پر سامراجی میڈیا کے زیر اثر ہے اور وہ ہر اس ایشوز کے لپیٹ میں آجاتے ہیں جس کا چرچا یہ میڈیا کرتا ہے ایسے حالات میں حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ نے نوجوانوں کی انقلابی بنیاد پر تربیت کی ان کو شریعت ، طریقت اور سیاست کے اسلوب سیکھائے اور ان کو حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے فکر سے روشناس کرایا اور انہوںنے آج کے نوجوانوں کو شاندار ماضی سے روشناس کیا ان سے مایوسی کو ختم کیا ان میں اعتماد پیدا کیا سامراجی میڈیا اور اس کے آلہ کار اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آذادی کو غدر کا نام دیتے ہیں حضرت اقدسؒ نے نوجوانوں کی فکری رہنمائی کرتے ہوئے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی کہ اٹھارہ سو ستاون کو شاملی میں آذادی کی جنگ لڑی گئی اور اس جنگ کی قیادت ہمارے اکابرین نے کی جن میںحضرت گنگوہیؒ ،اور حضرت نانوتویؒ شامل تھے انہوںنے نوجوانوں کو حضرت اقدس شاہ عبد الرحیم رائیپوریؒ، حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی تحریک سے روشناس کرایا ان کو دیوبند کے مقاصد اور اصولوں سے متعارف کرایا اور ان کو یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تحریک ریشمی رومال چلانے والے کون تھے؟۔
یہ بات اہم ہے کہ ظلم اور جبر کے نظاموں کے خلاف جو تحریکیں چلتی ہیں مراعات یافتہ اور حکمران طبقہ اس کے راستے میں کانٹے بچھانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے اور شدید ردعمل میں انقلابی نوجوانوں اور جماعت کو انتہائی کھٹن اور دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خاص کر ان کے خلاف جب منظم پروپیگنڈہ شروع کیا جاتا ہے اور فتویٰ فروشوں کی خدمات حاصل کر کے نظریاتی ورکروں پر فتوئوںکے میزائل داغے جاتے ہیں تو اس دوران کام کرنا مشکل ہوتا ہے مگر حضرت اقدسؒ نے اس حالات کا مقابلہ مردانہ وار کیا اور عدم تشدد کا راستہ اپنا کر نوجوانوں کو بتایا کہ مخالفین کے غبارے سے جلد ہوا نکلنے کو ہے آپ اپنا مشن جاری رکھیں نظام ظلم کیخلاف شعور حاصل کریں نظریہ سے اپنے آپ کو پیوستہ رکھیں دوست اور دشمن اور سچے اور کھوٹے میںتمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
وہ ہمیشہ یہ کہتے کہ انقلابی جماعت کی تشکیل ہمیشہ نظام ظلم کے خلاف ہوتی ہے اور جماعت کی تشکیل کے وقت سب سے پہلا تقاضا جماعت کو منظم کرنا ہوتا ہے اور اس دوران جو تنظیم نا انصافیوں اور جبر کے خلاف منظم ہوتی ہے وہ پائیدار ہوتی ہے اور تنظیم ہمیشہ ظالمانہ نظام کے خلاف ہی منظم ہوتی ہے سرمایہ دار جاگیردار اور دیگر مراعات یافتہ طبقے انقلابی جماعت کو نا پسندکرتے ہیںاس لیئے ان کی طرف سے عوام کو گمراہ کرنے کیلئے منظم پروپگنڈہ کیا جاتا ہے حضرت اقدسؒ نے نوجوانوںکو یہ باور کرایا کہ یہ سب کچھ فطری ہے جس جماعت کی مخالفت نہ ہو وہ جماعت کبھی منظم نہیں ہوسکتی اور حقیقی جماعت ہمیشہ ناانصافیوں اور محرومیوں کے ردعمل میں تشکیل پاتی ہیں اس لئے ابتدائی کام مشکل ضرور ہوتا ہے مگر پائدار ہوتا ہے اور اس لیئے بھی کہ ابتدائی کام میں مفاد پرستوںسے جماعت پاک ہوتی ہے اور کوالٹی کے حامل مخلص ترین افراد جماعت کا حصہ بنتے ہیں جو ہرقسم کے قربانی کے جزبے سے سرشار ہوتے ہیں۔
حضرت شاہ سعید احمد رائیپوریؒ خانقاہ رائیپور کے مسند نشین تھے چھبیس ستمبر دوہزار بارہ کو وہ اس دارفانی سے رخصت ہوئے مگر ان کا فکر ذندہ ہے بقول ان کے ’’آج کا نوجوان ہماری بات سنتا ہے اور سنے گااور ہمیں یقین ہے کہ شاہ ولی اللہؒ اور انقلابی پارٹی کے پودے لگ چکے ہیںاور اس کا پھل ظاہر ہونے میں کوئی تاخیر نہیں‘‘ یہ دستور زمانہ ہے کہ مفاد پرست طبقے حق پرستوں کا راستہ روکتے ہیں اور ان کے راستے میں مزاحم ہوتے ہیں حضرت شاہ سعید احمد رائیپوریؒ کو بھی ان کی زندگی میں بہت ستایا گیاان پر فتوے داغے گئے اور ان کے اور نوجوانوں کے درمیان دوری پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی مگر حضرت بہادری سے اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور کوئی فتویٰ ان کو راہ حق سے نہ ہٹا سکا ایک تقریر میں انہوںنے ان فتویٰ فروشوں کو مخاطب کر کے کہا ’’سرمایہ داروں سے سودی آمدنی لیکر دس دس کروڑ کی بلڈنگیں تم بناتے ہو ہم تو شاہ ولی اللہؒ کی بات کرتے ہیںاور لوگوں کو ان علماء ربانی کے ساتھ قریب کرتے ہیںتمہیں تکلیف کیوں ہوتی ہے؟اور تم ان علماء کی بات نہیں کر سکتے چونکہ اس صورت میں نظام سے ٹکرائو پیدا ہوتا ہے اور تمہارے چندے بند ہوتے ہیں ہم تو تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ آئو ہم سے بات کرو فتوئوں کا سہارا کیوں لیتے ہو؟اور ان کا کہنا تھا کہ ’’ جب نظام چاہتا ہے علماء کانفرنس بلا لیتا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شائد وہ ان سے نصیحت قبول کر لیگا اور میڈیا میں دکھاتا ہے کہ کتنے علماء ان سے متاثر ہو رہے ہیں آج بیشتر جماعتو ںکے مراکز لندن میں ہیں اور وہ لوگ ان میں فرقہ واریت پیدا کرتے ہیں چنانچہ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ انسانوں میں لڑائی پیدا کرنا ہے‘‘۔
’’حضرت شاہ سعید احمد رائیپوریؒکے والد حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے پانچ سال کی عمر میں ان کو خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور میں حضرت اقدس شاہ عبد القادر رائیپوری کی تربیت میں دیا اور تیس سال تک آپ ان کی تربیت میں رہے اور ان سے تعلیم حاصل کرتے رہے اور آخری دو سال درس حدیث کی تکمیل کیلئے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کو مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کی خدمت میں بھیجا جہاں سے آپ نے دورہ حدیث کو مکمل کیااور واپس خانقاہ رائے پور میں حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلوک وتصوف کے منازل طے کئے اور سیاسی تربیت حاصل کی اور شریعت، طریقت اور سیاست کی تعلیم اور تربیت کے بعد حضرت اقدس شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے سن انیس سو پچاس میں آپ کو خلافت عطاء فرمائی اور اس کے بعد بھی بارہ سال تک آپ حضرت شاہ عبد القادرؒ کی خدمت کرتے رہے ور اس کے بعد تیس سال تک آپ اپنے والد حضرت شاہ عبد العزیز رائیپوریؒ کی خدمت میں رہے اور ان سے استفادہ کرتے رہے اور سن انیس سو اٹھاسی پندرہ جنوری کو حضرت شاہ عبد العزیز رائیپوریؒ نے خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کی مسجد کے سامنے وسیع میدان میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں حضرت شاہ سعید احمد رائیپوریؒ کی جانشینی کا اعلان کیااس سے قبل سن انیس سو ستاسٹھ کو آپ نے سرگودہا میں نوجوانوں میں قومی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے اور سیاسی شعور بلند کرنے کیلئے جمیعۃ طلباء اسلام قائم کی اور بعد میں اس کا مرکزی دفتر سن 1969 کو لاہور میں قائم کیااور سن انیس سو ستاسی کو ملتان میں آپ نے پاکستانی نوجوانوں کو حضرت شاہ ولی اللہ کے فکر وفلاسفی سے روشناس کرنے کیلئے نوجوانوں کی اجتماعیت کی بنیاد ڈالی اور اس فکر کو پاکستان کے ہر کالج ویونیورسٹی اور مدرسے سے لیکر ملک کے ہر کونے تک پہنچایا اور اس سلسلے میں آپ کی باقی ماندہ زندگی نوجوانوں کی تربیت کیلئے مسلسل سفر میں گزری اور آپ مخلوق خدا کی روحانی، فکری، علمی اور سماجی تربیت کرتے رہے اور نوجوانوں کو منظم کرتے رہے زندگی کے آخری دس سالوں میں ڈاکٹروں نے ان کے سفر پر ان کی صحت کی وجہ سے پابندی لگا رکھی تھی مگر شدید بیماری اور بڑھاپے کے باوجود ان کے جذبات جوان تھے یہاں تک کہ ان کی رحلت سے قبل بے ہوشی سے تھوڑی دیر کیلئے وہ ہوش میں آتے تو یہ دعا کرتے ’’ یا اللہ میری جماعت کی حفاظت فرمانا‘‘اور بقول مولانا عبدالمتین نعمانی ان کا آخری پیغام یہ تھا کہ’’صلاحیت کو معیار بنائو، اختلافات نہ کرو، مسلک سے وابستہ رہو، تاریخی تسلسل کو نہ چھوڑو،اختلافات نہ کرو‘‘ اپنے جانشین کے تقرر کے سلسلے میں ابھی انہوںنے سنت نبویﷺ کو مد نظر رکھااور فیصلہ جماعت پر چھوڑا چنانچہ جماعت نے صلاحیت کو معیار بنا کر مفتی عبد لخالق آذاد کو آپ کا جانشین مقرر کیا جو علم ، عمل اور تقویٰ میں اپنی مثال آپ ہیںجنہوںنے حضرت اقدسؒ کی بڑی خدمت کی اور سفر حضر میں حضرت کے ہمراہ رہے اور ان کی موجودگی میں امامت اور درس وتدریس اور تفسیروحدیث پڑھاتے رہے چھبیس ستمبر سن دوہزار بارہ ولی اللٰھی فکرسے وابستہ نوجوانوں کیلئے قیامت کی گھڑی ثابت ہوا کیونکہ اس دن خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائیپور کے مسند نشین پیر طریقت حضرت شاہ سعید احمد رائیپورؒی پاکستان کے اور بیرون پاکستان لاکھوںنوجوانوںاو متوسلین اورمریدین کو افسردہ چھوڑ کراس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کی نماز جنازستائس ستمبر دوہزار بارہ کوہ وارث گرائونڈ لاہور میں ادا کی گئی نماز جنازہ مفتی عبد الخالق آذاد نے پڑھائی جنازے میںڈاکٹر مفتی سعد الرحمان اعوان صدر شعبہ اسلامیات بھائوالدین ذکریاؒ یونیورسٹی ،مولانا مفتی عبد المتین نعمانی ، مولانا مختارحسن، سمیت ذندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک بھر سے شرکت کی جن میں سے اکثریت کالج یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طلباء کی تھی اس کے بعداشکبار آنکھوں سے ان کو ادارہ رحیمہ کے قریب احاطے میں سپرد خاک کیا گیاوہ تو اس دار فانی سے کوچ کر گئے مگر انہوںنے کالج ویونیورسٹی اور دینی مدارس کے طلباء کے مابین ملکی سطح پر جو مثالی نظم قائم کیا ہے وہ آگے بڑھ رہا ہے اور ان کا مشن زندہ ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ہم سب کو آپ کے فکر وعمل اور جدوجہد کو صحیح طور پر سمجھنے اور غلبہ دین کیلئے جدوجہد کرنے کی توفیق عطاء فرمائے (آمین)!!!
ََََََََََََََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

By Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *